رات کے بارہ — نہیں! — شاید !
گھڑی کی سوئیاں اک دوسرے سے
چند لمحوں کی مسافت پر کھڑی ہیں
سیڑھیوں کے ساتھ کمرے میں
دھوأں سا بھر گیا ہے
میز پر سگرٹ کے پیکٹ میں فقط،
اک آخری سگرٹ بچا تھا،
وہ بھی اب سلگا لیا ہے
تیسری منزل سے نیچے سب دکانیں بند ہیں
اور سر کے اوپر، چھت پہ خالی آسماں ہے
رات لمبی رات ہے،
سرما زدہ بستر میں ویرانی بچھی ہے
آخری سگرٹ بھی آخر— آخری ہے
ہاتھ کی پوروں میں جلتی راکھ بھرتی جا رہی ہے
اور سینے میں کہیں دل کی جگہ دھڑکا لگا ہے
سیڑھیوں کے ساتھ والا پورا کمرہ
زلزلے سے کانپ اُٹھا ہے
یا نظر کے زاویے بہکے ہوئے ہیں
آخری سگرٹ کے بجھنے تک
کہیں کچھ دُور ، کوئی اک دکاں
کھلنے کا امکاں بھی اگر ہو
تیسری منزل سے نیچے کون جائے— !!!