خالد احمد

یہ میں نہیں، مرا پَرتَو نہیں، یہ میں تو نہیں
گماں سا کیوں مجھے گزرا؟ کہیں یہ میں تو نہیں

مری طرح کہیں شائستۂ وفا ہی نہ ہو
وہ شخص کتنا حسیں ہے، کہیں یہ میں تو نہیں

کسی نگاہ کے بس کی رہی یہ لَو نہ یہ ضَو
چراغ سا ہے تہِ آستیں، یہ میں تو نہیں

دیارِ دل میں رُلانے پہ کون روتا ہے
یہ سب ہیں اہلِ غم اپنے تئیں، یہ میں تو نہیں

نہ ذکرِ سروِ چراغاں، نہ فکرِ طاق و رواق
نہ ماہ، رُوکشِ داغِ جبیں! یہ میں تو نہیں

قضا ہوا مرا کیا کچھ ترے خرام کے ساتھ
بچا ہے کیا؟ یہ ہے دنیا کہ دیں! یہ میں تو نہیں

یہ لب ہوئے ہیں عجب شہد لب کے ہجر میں زہر
چھلک نہ اے قدحِ انگبیں! یہ میں تو نہیں

یہ ماہ و سال کی دیمک کے بُھربُھرے گھر ہیں
یہ کس کا تن ہے؟ تہِ پوستیں! یہ میں تو نہیں

مرا وجود مرے پانچویں حواس میں ہے
سبھی حِسیں یہی کہنے لگیں: یہ میں تو نہیں

ستارہ گیر کس اَسپِ غزل کی ٹاپیں ہیں
مہِ ردیف، مہِ پس نشیں، یہ میں تو نہیں

وہ مجھ کو چھو کے گزرتا چلا گیا خالدؔ
مہک رہا ہے جو مجھ میں، کہیں یہ میں تو نہیں

Related posts

Leave a Comment