خالد احمد

یہ میں نہیں، مرا پَرتَو نہیں، یہ میں تو نہیں گماں سا کیوں مجھے گزرا؟ کہیں یہ میں تو نہیں مری طرح کہیں شائستۂ وفا ہی نہ ہو وہ شخص کتنا حسیں ہے، کہیں یہ میں تو نہیں کسی نگاہ کے بس کی رہی یہ لَو نہ یہ ضَو چراغ سا ہے تہِ آستیں، یہ میں تو نہیں دیارِ دل میں رُلانے پہ کون روتا ہے یہ سب ہیں اہلِ غم اپنے تئیں، یہ میں تو نہیں نہ ذکرِ سروِ چراغاں، نہ فکرِ طاق و رواق نہ ماہ، رُوکشِ داغِ…

Read More