ہوائے خطہِ کرب و بلا سے ملتی ہے
متاعِ گریہ بھی گویا عطا سے ملتی ہے
ہر ایک عہد کے مقتل میں آس جینے کی
ترے وسیلہء صبر و رضا سے ملتی ہے
نصیب یوں نہیں ہوتا ملالِ تشنہ لباں
یہ بے کلی، یہ کسک التجا سے ملتی ہے
اسی لیے تو در و بام ہیں اُجالے ہوئے
کہ روشنی ترے مقتل سرا سے ملتی ہے
سرِ افق ہے ترے خون سے لکھی تحریر
ہر ایک شام خطِ کربلا سے ملتی ہے
ہمارے درد پہ قدغن لگانے والو، سنو!
تمہاری سوچ بھی اہلِ جفا سے ملتی ہے
یہ بارگاہِ مودت ہے اس میں تابِ کلام
حسین ابنِ علی کی رضا سے ملتی ہے
(احمد ادریس)