شاہین عباس ۔۔۔ ایڈیٹنگ

ایڈیٹنگ
 
نظم ہو یا افسانہ، کچھ بھی لکھتے ہوئے، مجھے بارہا قطع و برید کے جبر سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ جبر کبھی تو رزمیہ بن جاتا ہے اور کبھی طربیہ۔ میں نے نظم لکھی ، جس کامصرع تھا خدا ایک ہے۔ اگلی ہی جست میں اُسے یوں تبدیل کردیا، لا ایک ہے یا یوں کہیے کہ دونوں مصرعوں کو ایک دوسرے کے متوازی استوار کر دیا کہ بھلے ہی دیرینہ دشمنوں کی طرح گھورتے رہیں ، مگر ٹکرائیں نہیں۔ یوں سوال کا جواب دیا اور جواب پر سوال بھی داغ دیا۔ میرا اور میرے قارئین کے بیچ جو حجاب ِ درمیان یا ابہامِ محض کا رشتہ شروع دن سے چلتا چلا آ رہا ہے، وہ قرنوں  بعد بھی غیر موئژ  نہیں ہوا۔ میں دن کے آغاز پرگھر سے نکل کر جب اپنی منزل کے لیے چلنا شروع کرتا ہوں تو سو فیصدانسان یا آدمی ہوتا ہوں، اِتنا تو مجھے پتہ ہے۔میری موج میرے اندر کہیں دفن ہوتی ہے ، اور باہر نظر نہیں آرہی ہوتی۔ یعنی موج صفر فی صد ہوتی ہے۔ پھر میں رفتار پکڑتا ہوں تو موج کو موقع ملتا ہے سر اٹھانے کا یا مجھ سے بغاوت کرنے کا۔ ایک خاص رفتار پر پہنچ کر میں بہ یک وقت آدھا موج ہوجاتا ہوں او رآدھا انسان یا آدمی ۔ ففٹی ففٹی یا سکسٹی فورٹی یا فورٹی سکسٹی، بس کچھ اِسی تناسب سے ہو تا  ہوں۔ یہ ہونابھی میرے علم میں ہے۔ہوتا کیا ہے کہ تماشا اِس ففٹی ففٹی پر ختم نہیں ہوتا ، میں اِسی رفتارکو کافی نہیں سمجھتا۔ زقندیں بھرتا اور چھلانگیں لگاتا روشنی کی رفتار سے چلنا یا اڑناشروع کر دیتا ہوں۔ روشنی کا ہم رفتار ہوتے ہی بس جیسے بے قابو سا ہو جاتاہوں۔ اِس مرحلے پر میری اپنے بارے معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔ دیکھنے والے کہتے سنے گئے ہیں کہ ایسی حالت میں ، میں صد فی صد موج ہوتا ہوں یعنی موج ہی موج ، اور انسان یاآدمی صفر فیصد۔ پھر اِن تینوں حالتوں کے الٹ پھیر سے ایک اکائی ترتیب دیتا ہوں اور سفر کا عنوان قائم کرتا ہوں ۔ میرے خیال میں مذکورہ اکائی بنی نوع انسان کی وحدت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نہیں کرتی تو کرنا چاہیئے۔ یوں میری نظم بن جاتی ہے۔
میرے بارے میں اٹھنے والی آوازیں اور کیے جانے والے سوال اِسی تیسری حالت ، یعنی میری حالتِ غیر سے ہوتے ہیں، کہ میں چلتے چلتے ، چلیے بھاگتے بھاگتے ہی سہی ، روشنی کیسے بن جاتا ہوں۔
حرکت ہو تو ایسی ، سکون ہو تو ایسا۔ زمانے کی حیا نہ مارے تو اِس موج کو بھی غائب کرسکتا ہوں۔
ایک دن میں گلی میں سے گزر رہا تھا ، اور نظر بھی آ رہا تھا۔ کسی کے ہاتھ میں یا آنکھ میں پتھر اگر کہیں تھے بھی ، تو دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میں گزرتا  گیا، اور کم سے کم تر ہوتا گیا ۔ جتنا کم تر ہوا، پتھر اُتنے ہی بیشتر اور بر تر ہوتے چلے گئے۔ چھب دکھلانے لگے، ہاتھ کرنے لگے۔ گلی کی نکڑ پر پہنچ کر دیکھا تو میں کہیں بھی نہیں تھاا ور ہر طرف سے پتھر برس رہے تھے مجھ پر۔ قامت میں صفرفیصد ، قیامت میں صد فیصد۔ اللہ اللہ ایک خدا ایک لا، ایک لا ایک خدا، کتنے خدا  کتنے لا، اِتنے خدا اِتنے لا۔ مجھے بیک وقت خدا اور لا کی طرف سے تین خواہشیں بتانے کا اختیار ملا۔
’’اے شاعر ، تم کس طرح کی موت مرنا پسند کرو گے؟‘‘
’’گلی سے گزرتے ہوئے!‘‘
’’آتے ہوئے یا جاتے ہوئے؟‘‘
’’آتے جاتے ہوئے!‘‘
بات تو کر دی مگر ساتھ ہی ساتھ حد بھی تو کردی ۔ رات کو کاغذقلم پھراٹھایا ۔ اپنا احتساب شروع کیا کہ آیا یہ جو میں نے اپنی موت کی جگہ کا تعین بے دھڑک کر دیا ہے، درست بھی ہے یا نہیں۔ یہ مرنا میرے معیار کا مرنا ہے یامیعار سے کم تر۔ پتہ چلا کہ دو میں سے ایک خواہش غلط بتا دی ہے۔ گلی میں مر جانے سے کیا کوئی نیا بابِ نعمت کھولا جا سکتا ہے ، نہیں ہر گز نہیں، معلوم نہیں کتنے بہت سوں کی یہی خواہش اور روٹین ہوتی ہو کہ گلی گلی نبٹ جاتے ہوں۔ میں نے استغفار پڑھا ۔میرے پاس آخری ایک خواہش کا اختیار ابھی اور تھا اور پھر بس۔ مجھے احتیاط کا مظاہرہ کرنا تھا۔
میں گلی سے گزرتے ہوئے نہیں ، بل  کہ گلی کو خود میں سے گزارتے ہوئے مرنا چا ہتا تھا۔
بس پھر کیا تھا حمدیہ واردات رزمیہ میں منعطف ہوگئی ، پھر یہ روشنی پلٹ کر نہیں دی۔
یہ جو میں گلی گلی کرتا پھرتا ہوں ، تو یوں ہے کہ گلی میرے نزدیک دنیا و مافہیاکا کوئی دوسرا نام نہیں۔ یہ محض اجتماع اور ہلڑ  بازی کا پلیٹ فارم بھی نہیں کہ جب چاہا سدھائے ہوئے جنگجوؤں نے ایک دوسرے پر دھاوا بول دیا ۔ جھولوں ہنڈولوں کی ہا ہا کار ، قوس ، قوسین ، طرف ، طرفین، اونچ نیچ کا پہاڑ، سچے موتیوں کا ہار۔ میرے عقیدے میں یہ مستطیل نما ٹکڑا ارتقا ہے اور احیا ہے۔ اِس کی اینٹ اینٹ بھرم کی بنیادوں پر لگائی گئی ہے۔ اینٹ اکھاڑتا ہوں ، بھرم کا خون کرتا ہوں ، قاتل کہلاتا ہوں۔ تبدیلی کے لیے اور کیا کر سکتا ہوں۔ افقی تبدیلی ، عمودی تبدیلی، طاق کی بدلی ، جفت کی بدلی، تغیر تبدل میرا ، تغیر تبدل تمھارا۔
میرے جن قارئین کو اعتراض ہے کہ میں شخصی اعتبار سے بہت مبہم ہوں، میری نظمیں اور غزلیں سمجھ میں نہیں آتیں، ان کے لیے مشورہ ہے یہ کہانی پڑھیں۔ میری کہانی کی قرات ترتیبِ نزولی کے عین مطابق کی جائے اوّل سے آخر ، یا معکوس الترتیب پڑھتے ہوئے آخر سے اوّل تک  پہنچا جائے ، ایک سا مطلب نکلتا ہے۔ میں خود چوں کہ کہانی کا انجام ، غزل کا آخری شعر ، نظم کا کلوزنگ  ستانزا پہلے لکھتا ہوں ، اِسی لیے مئو خر الذکر طرزِ خواندگی بھی آپ کے حق میں اُتنا ہی سبق آموز ہے جتنا کہ اوّل الذکر۔ مجھے دنیا بھر کے قارئین کا خیال رہتا ہے جن کے لیے میں ایک ہی تجربے سے حظ اٹھانے کے دو طریقے وضع کرنا چاہتا ہوں اور بتا دینا چاہتا ہوں کہ سیدھے قدموں فساد اور الٹے قدموں فساد ایک ہی جنگ اور ایک ہی غزوہ کے دو زائیدہ ہیں ۔میں نے کہانی پڑھنے کا کوئی مخصوص وقت بھی قاری کو نہیں بتایا، جیسے وہ اذان جس کے مابعد نمازکی روایت نہیں ، اور وہ نماز جس سے ماقبل اذان ثابت نہیں ، کسی بھی خاص جگہ یا پابندیِ وقت کے تابع  نہیں، اِسی طرح میرے قاری کو بھی میری طرف سے چھوٹ ہے۔ جب چاہے کتاب کھولے ، جہاں سے چاہے پڑھے، اور جیسے چاہے کتاب بند کردے۔ کتاب کھولتے ہی بند کردے ، تب بھی وہ کہانی میں سے میری منشا و مراد اخذ کر سکتا ہے ، جو بہت حد تک میرا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہوا بھی ہے۔
اچھا تو عبارت میں پے در پے ردو بدل کا فائدہ یہ ہوا کہ منتہا کی قطعیت قائم نہیں ہوتی، بل کہ اِس کی لا متناہیت کا غبارہ حجم میں پھیلتا رہتاہے ۔اِدھر پھٹنے کے قریب پہنچا تو ہوا ہی نکال دی ، جیسے کبھی تھی ہی نہیں، اور پھر پھُلانے لگ گیا بیلون کو، کوئی اور ہوا بھر دی کسی اور خدا سے مستعار ، کسی اور لا کی ادھار۔ مجھے اندازہ ہے کہ قطعی قیام کا مجاز نہ تو میں ہوں اور نہ متحمل۔ یہ تو ہوا فائدہ۔ اور نقصان ایک ہی ہے کہ کچھ بھی ، کبھی بھی ختم پر نہیں آتا، جیسے میری شادی کی تقریب، گیارہ بارہ برس بعد بھی اُسی طرح جاری ہے۔ اب میں کیا بتاؤں ، میں نے پہلی رات ذرا درمیانی نگاہ کی تو چوبارے میں کیا دیکھا ، ، دوسری رات نیچے دیکھا تو پستی میں کس کس کو فرشِ راہ پایا اور تیسری رات نظراوپر کی طرف اٹھائی تو بلندی پر کیا کیا نظر آیا ۔ جشن ایک تھا مگر اُسی جشن میں موجو د مہمان لڑکیوں کو آج تک لا لا کر کمرے میں ڈالتا رہتا ہوں۔ کمرہ بیویوں سے لد چکا ہے ، صحن میرے بچوں سے بھر گیاہے، اور میں خود ایک ہزار ایک توہوں ہی۔
’’میں آپ جیسی ہونا چاہتی ہوں ، کیا کروں؟‘‘
’’اپنی مسکراہٹ کی مرمت کرو!‘‘
’’اور کیا کروں؟‘‘
’’افسردگی کی اوور ہالنگ کرواؤ۔ رونا گانا اِس طرح سے ہو کہ لائف پارٹنر تو دور کی بات ، تمھارے بنانے والے کو بھی تمھارا سُر سننے کے لیے نیچے اترنا پڑ ے۔اپنی سرگوشی کا ہم گوش پیدا کرو۔ چلا چلا کر توہر کوئی اپنی اکثریت ثابت کر سکتا ہے۔ جانو ریہی ہاہا کار تو کرتے ہیں جب انسان کو اکیلا پاتے ہیں جنگل میں۔
تمھیں کسی کی ہنسی میں اور بین میں شرکت کا اختیار اُس وقت تک نہیں، جب تک اپنی ہنسی اور اپنے بین کا گلہ گھونٹ نہیں دیتیں۔ اور یہ تصدیق خط کی تحریر یا فون کال کے ذریعے سے نہیں کرنا ہوتی کہ پھانسی ہوچکی بل کہ آئی ٹو آئی کانٹیکٹ سے واضح کرنا ہوتا ہے‘‘۔
’’اچھا چلو چھوڑو ، یہ بتاؤ ناسٹیلجیا کیا ہوتا ہے ، کلیشے کیا بلا ہے؟‘‘
اُس نے یہ سوال ادب میں دلچسپی کے باعث نہیں پوچھے ، بل کہ مجھے دیکھتے رہنے سے یہ باتیں اُسے یاد ہو گئیں ہیں۔
’’میں نے تمھیں ایک بار بنایا اور بار بار بسر کیا۔ ہر گزشتہ بسرام آئندہ سے مختلف تھا۔ یہ ناسٹیلجیا ہے‘‘
’’اور کلیشے‘‘۔ وہ خود کو بے پردہ کروانے پر تُلی بیٹھی تھی
’’تم نے مجھ کو ایک بار بنایا ، ایک ہی بسرام ، ایک ہی گزران کے لیے۔ یہ کلیشے ہے۔ مزید سننا ہے تو سنو ، تم میرا ناسٹیلجیا ہو اور میں تمھارا کلیشے‘‘۔
’’یہ نشانیاں آپس میں بدلی نہیں جاسکتیں کیا؟‘‘
’’مکان بدلے جا سکتے  ہیں ، نشان اور نشانیاں نہیں۔ بس ڈتے رہو اپنی اپنی پوزیشنوں پر ، ہٹو نہیں ۔ لیفٹ رائٹ ،لیفٹ رائٹ‘‘
وہ لیفٹ رائٹ ،لیفٹ رائٹ کرتی ، میرے لیے چائے لینے چلی گئی۔
دستک ہوتی ہے اور بغیر پوچھے کہ کون ، دروازہ کھول دیتا ہوں ۔ پھر خیال آتا ہے کہ یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ کون۔ آنے والے کو واپس باہر بھجتا ہوں اور ازسرِنو دروازہ کھٹکھٹانے کا کہتا ہوں ، وہ کھٹ کھٹ کرتا ہے ، میں پو چھتا ہوں کون ، وہ کہتا ہے ، میں، تب جاکر کہیں دروازہ کھولنے کا خطرہ مول لیتا ہوں۔ میں نے گھر والوں سے بھی کہ رکھا ہے کہ اگر میں بھی وقت بے وقت گھرآؤں، تو مجھے بھی ایک باری میں نہیں ، دو باریوں میں اندر بلوایا کرو۔ تجربے کا اختیار آخر اِن کو بھی تو حاصل ہے۔
رات میں لحاف میں سویا ، پھر اٹھا اور دیکھا کہ لحاف میرے اوپر ہے کہ نہیں ، تھا ، مگر اتار کر دوبارہ اوڑھا تو اطمینان ہوا اور موسم کے سرد گرم سے نمٹنے کے قابل ہوا۔میرا یہ عمل نسیان کے ذیل میں نہیں آتا اور کوئی بندہ بشر اِسے نسیان بروزنِ  انسان کہنے کی غلطی بھی نہ کرے۔ یہ تو سراسر امکان کی تلاش کا سفر ہے ، معانی سے شیطانی روگردانی کے ذریعے معانی کی اطاعت کا عملِ صالح ہے، جس سے میری دانست میں نیکیوں میں اضافہ مقصود ہے۔ ہو سکتا ہے پہلی بار دروازہ کھولنے سے وہ سب نہ کھلا ہو جو بند کرکے دوسری بار کھولنے سے کھلا ہو گا۔ پہلی بار یوں لگا ہو جیسے یہ شخص مجھے کالے پانیوں کا دیس نکالا دینے آیا ہے اور اِس کے ہاتھ میں عدالتی فیصلے کی فوٹو کاپی ہے۔ دوسری بار انٹری ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تو ہمار دودھ والا تھا، جس کو میری وجہ سے ایک دن میں خوامخواہ دو بار دہلیز پھلانگنی پڑ گئی۔
لحاف لے کر ہی سویا تو کیا کمال کیا ، اصل کمال تو اتار کر لینے میں تھا۔ اِس کا اندزہ مجھے ہی تھا ، ساتھ سونے والوں کو نہیں۔ لحاف کی بات ، لحاف ہی میں رہے تو بہتر ہے۔ غیر ضروری طور پر پردہ سرکا کر ہر کسی کو شاملِ حال کرتے پھرنا مجھے نہیں آتا۔
مگر یہ نظرِ اوّل ، نظرِ ثانی ، نظر نگاہ کرنا، پھیرنا، پھر کرنا اور پھر کرتے چلے جانا بکھیڑا ہی بکھیڑا ہے جس کا ایک شروع کاسرا تو ہے ، دوسرا آخیر کا کہیں نہیں۔ لکھتے رہنے اور لکھ لکھ کر بدلتے رہنے کی عادت سے میرے پاس کاغذ و قلم کا ذخیرہ کم پڑنے لگا تھا ۔میں نے دروازے کو بوڑھا ہو تے اور لحاف کو بوسیدہ ہوتے ہوئے دکھانا  ہے، سو مجھ سے قلم و موقلم کا حساب نہیں رکھا جاتا۔ ردی کی ٹوکری بھرجاتی ہے ، جیسے پیٹ بھر جائے اور پھر خالی بھی ہوجائے۔ خیر یہاں تک تو ٹھیک تھا ، جیسے تیسے گزر بھی رہی تھی۔ مگر جب سے یہ بتانا واجب ہوا ہے کہ نماز میں یکے بعد دیگرے دو سجدے ، اور پے در پے دو سلام کس کس سہوِ ناثبوت کی کارفرمائی کو دیکھتے ہوئے رکھے گئے ہیں تو امکان کی بازیافت اور معانی کی دریافت در دریافت کا عمل طول پکڑتا جارہا ہے، اِسے میرے ہاتھوں طول ہی پکڑنا چاہیے تھا۔
’’پھر تو رکوع بھی دو ہونے چاہییں، ایک نہیں‘‘
’’اصل میں یہ تمہید ہے۔ اتمام ہے اگلے اقدام کے لیے۔ حرکت الگ سہی، کنفیوژن الگ نہیں‘‘۔
’’آپ ساری ساری رات گھر میں آتے جاتے رہتے ہیں‘‘۔ اُس نے موضوع کو پلٹا دینا چاہا کہ ایسا حساس نکتہ اٹھانے پر گرفت میں نہ آ جائے
’’مگر میں تو ایک ہی بار آتا  ہوں‘‘
’’سارا سار ادن آپ کے باتھ روم کے چکر لگتے ہیں‘‘
’’نہیں تو، ایک ہی چکر لگاتا  ہوں‘‘
’’آپ نے کئی ایک شادیاں کر رکھی ہیں‘‘
’’میں نے تو ایک ہی شادی  کی ہے‘‘۔
یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب مجھ سے مانگے جانے لگے تو میں چوکنا ہو گیا، پہلے سے زیادہ ہوشیار ، پُراسرار گھر کی ڈور بیل پہ کاؤنٹر لگا ہوا ہے ، کون کتنی بار آیا ، کاؤنٹر کے پاس نمبر بڑھنے کا پورا حساب ہوتا ہے۔ میں نے ایک رات اپنی نقل و حرکت کا شمار کیا تو اندازہ ہوا۔ وہ ٹھیک کہتی ہے۔باتھ روم میں اپنے قدموں کے نشان بنائے ، مٹائے ۔ مٹے تو ، مگر پھر بن گئے۔ یہاں بھی اُس کے مشاہدے کی داد بنتی تھی۔تیسری بات تو اُ س کی ٹھیک تھی ہی۔ وہ بیان اُس نے مجھے خوش کرنے یا آوارہ گرد ثابت کرنے کے لیے جاری تھوڑی کیا تھا۔
قصّہ کچھ یوں ہے کہ جب مجھے اندیشہ لاحق ہوا اگر خود کو خود میں جمع نہ کیا، تو تفریق ہو جاؤں گا اور تفریق کا منتہا صفر سے بھی آگے نیگیٹو نمبرز پر جاکر کہیں اختتام پذیرہوتا ہے۔ تب میرا ماتھا ٹھنکا کہ جمع تفریق کے یہاں کچھ کچھ کالا ہے۔ کالے دَھن کو سفید کرنے کسی کو تو آگے آنا تھا ، میرا گھر قریب تھا ، میں پہلے آگیا۔
اُسے پتہ چلا تو بولی ’’ شاباش  ، جنٹل  مین، اِسے کہتے ہیں پوری کی پوری جی حضوری‘‘۔
وہ غالباََ حضوری کو جی حضوری سے الگ ثابت کرنا چاہتی تھی اور اپنے تئیں کامیاب تھی اور مجھے سب سے قریب پڑتی تھی۔ایک بار دیکھنے سے صرف قریب  ، جبکہ دو بار دیکھنے سے بہت قریب۔جب اُس نے میرے زیرِ استعمال قرطاس وقلم بل کہ لوح و قلم کا ذخیرہ خطرے کے نشان سے بھی نیچے تک آیا ہوا دیکھا تو میرے سامنے کمپیو ٹر لا کر رکھ دیا۔
’’یہ لو ۔ اِس کے صفحات ختم نہیں ہوں گے۔ جتنا چاہو لکھو۔ یہی نہیں بل کہ جتنا نہ چاہو ، نہ لکھو‘‘۔ اُسے میرے لکھتے رہنے سے یہ اندازہ تو ہو گیا ہوگا کہ میں کیا لکھنا چاہتا ہوں ، مگر نہ لکھنے کی حالت سے یہ پتہ نہیں چل سکا ہوگا کہ میں کیا نہیں لکھنا چاہتا۔
میں نے ماؤس ، کی بورڈ سنبھالا۔ سامنے ایل ای ڈی ٹکا دی۔ سہج سہج لکھنے لگا۔ عہد کیا کہ سچ سچ لکھوں گا۔ خدا ایک ہے ، جیسے لا ایک ہے۔ وہی نظم یا دآگئی ۔ مگر پہلے یہ بیانیہ یوں نہیں تھا۔ کچھ اِس طرح تھا، خدا ایک ہے یا کہ لا ایک ہے۔ معمولی رد وبدل سے معانی جو کہ ایک دوسرے سے کنارہ کیے ہوئے تھے، ہم کنار ہوگئے، دوست دشمن کوسنبھالا دینے لگا، تہ و بالا ہو کر ہی سہی۔اقرار اور انکار کے الگ الگ دھارے ذرا سی نئی تلچھٹ ، نئے طلاطم سے گزرے تویک دم ایک جسم ایک جان ہو گئے، جیسے کبھی جدا  تھے ہی نہیں ، میں انجام کار چاہتا بھی یہی تھا۔ نظرِ ثانی ہو تو ایسی ہو ، ورنہ صرفِ نظر ہو۔ اب ڈھونڈتے رہیے ۔ کون کہاں سے چلا ، کہاں تک گیا اور کہاں کہاں گیا۔ یہاں ایک اور مثال دیتا ہوں،ایک اور نظم سے۔ میں نے اپنی نظم کی خاتون متکلم سے ایک جگہ کہلوایا۔تیرے چھونے سے میں حاملہ ہو گئی ، پیٹ کھلنے لگا۔ اب جو متن کودوبارہ دیکھاہے تو کِی بورڈ کی شہ پا کر بات کچھ یوں بدل دی ہے ۔ تیرے گیتوں سے میں حاملہ ہو گئی۔ وقت چلنے لگا۔ یہ کِی بورڈ کی شہ تھی یا سازینے کی شہوت۔ بادی النظر میں چھونے اورہاتھ لگانے سے تو اختلاط بھی مراد ہو سکتا تھا ، روٹین کے تابع مبتدیوں کا سامرئی عمل ،مگر یہ متکلم کے حسبِ حال نہیں تھا۔ پھر میرے حسبِ منشا بھی کہاں ہو سکتا تھا۔ تب ذرا بپھر کر غیر مرئی شے کو حمل کے ٹھہرنے کا سبب قرار دیا۔ جیسے محبوبہ نے ا یامِ حمل میں بیڈ روم کی دیوار پر اپنے محبوب کی تصویر آویزاں کر رکھی ہو، سارا سارا دن اُسی کے خیال میں گم رہتی ہو ، اُسی کی ٹائی نکٹائی کھولتی اور بند کرتی رہتی ہو، رات ہوتی ہو تو اُس کی بوشرٹ کے سامنے کے بٹن کھول کر پورے شرحِ صدر سے اُس میں چھپ جاتی ہو، محبوب اپنے ہاتھ بڑھا کر بٹن بند کر لیتا ہو ، اور پھر لڑکی کو نیند آ جاتی ہو۔ پورے نو مہینے تک  یہ وظیفہ جاری رہا ہو۔ اور پھر جو بچہ پیدا ہو وہ شوہر کے بجائے محبوب کا ہم شکل نکل آیا ہو۔ یہیں تک نہیں ، بل کہ بڑا ہو کر عادات و اطوار میں بھی اپنے روحانی باپ پر ہی گیا ہو یا جانا پسند کیا ہو۔ تجربے کی اگر اولیں شکل پر ہی قلم روک دیتا تو مارا جاتا ۔ نظرِ ثانی کی تو پتہ چلا ایک زچگی پر دوسری زچگی کا غلاف بعض اوقات کتنا ضروری ہوتا ہے۔ دو کے تین کیسے بنے۔لیبارٹری اسسسٹنٹ حیران کہ ڈی این ایس سے کچھ پتہ نہیں چل پارہا یہ نوزائیدہ خلیہ کس کس گھاٹ کا پانی پی کر پار اترا ہے۔
یوں میری نظم مکمل ہو جاتی ہے۔ یہ اُن دنوں اور اُن راتوں کی تقویم سے دو دو ہاتھ کرتی ہے جب حساب کتاب ابھی عام نہیں تھا۔ طاق کو جفت اور جفت کو طاق سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔آدم کی پسلیوں کا شمار پسلیوں پر ہاتھ لگا لگا کر کیا جاتا ہوگا۔ ہرجفت کے اندر طاق دبکا پڑا ملا ۔ اِسی طرح ہر طاق کا بھی کوئی نہ کوئی جفت بچہ ضرور ہوتا ۔ایک لاکھ چوبیس ہزار مساوی ایک لاکھ تیئیس ہزار نو سو ننانوے جمع ایک۔ ایک لاکھ تیئیس ہزار نو سو ننانوے جمع ایک مساوی ہے ایک لاکھ چوبیس ہزارکے۔ بس اب جفت کو توڑتے جائیں اور طاق بناتے جائیں۔ طاق کو طاق کے پہلو بہ پہلو ٹکاتے جائیں اور جفت بناتے جائیں۔
’’سب ٹھیک ہو گیا نا ؟‘‘
’’کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا‘‘۔
’’تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ زبان کی گرہ کیسے کھلتی ہے۔ سینے کا کھلنا کیا ہوتا ہے‘‘۔
’’یہ گرہیں آنول کٹتے ہی پڑجاتی ہیں۔ اِن کا جانا ذرا مشکل ہی سے ہوتا ہے‘‘
’’کم تو ہو سکتی ہو ںگی کہ جکڑن پکڑن میں وقتی ریلیف ہی مل جائے؟‘‘
’’ریلیف انھی کے لیے ہے جنھوں نے فرق نہیں کیا۔ طاق راتوں کی عبادت کو جفت اور جفت جگ راتوں کی مشقت کو طاق کے ساتھ ادل بدل کر دیا‘‘۔
’’وہ کیوں؟‘‘
’’اپنے آپ کو زیادہ محفوظ کیا۔
وہ جس نے ایک زمانے میں طاق کو فوقیت دی ، کیا خبر اِس سے ہزاروں کروڑوں سال پہلے جفت کے درجات گنوا چکا ہو ، اور کاغذ قلم نہ ہونے کی وجہ سے اُس کا وہ سارا حساب لکھے جانے سے رہ گیا ہو، اور جفت سمیت جفت کے ماننے والوں کا نشان بھی مٹ گیا ہو، اور یہ ایک عدد کی حیثیت سے تو باقی رہ گیا ہو ، مگر اِ س کے ساتھ جڑی ہوئی کسی روایت یا اسطورہ کا علم سراغ نہ لگایا جا سکتا ہو ‘‘ ۔
’’زیادہ محفوظ ، زیادہ پاک ۔ پھر تو بڑے جنات ہوں گے وہ لوگ‘‘۔
وہ اُس رات بھی سراسربے سروپا گفتگو کے موڈ میں تھی۔ میں سویا رہا اور سنتا رہا۔ یہ بھی مہمیز کی ایک صورت تھی۔ اِس تجاہل میں رہ رہ کرمیں نے سرپٹ دوڑنا سیکھ لیا تھا۔وہ میری رفتار کا ساتھ دینے کی کوشش کرتی اور میری گرد کا بھی۔ ہر صبح دامن جھاڑتی ہوئی اٹھتی اور مجھے یہ جتلانے لگتی کہ میں بھی تمھارے ساتھ ساتھ ہی دوڑتی رہی ہوں۔
’’کہاں تک؟‘‘
’’جہاں تک ٹریک تھا‘‘
’’ٹریک کہاں تک تھا؟‘‘
’’جہاں تک ہم بھاگے ہیں۔۔۔زندگی ہمیں خود کو بد صورت بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ ہمی اختیار سے تجاوز کرتے ہیں‘‘
صبح صبح اُس کے گھوڑے نے ریس جیت لی۔ جھاڑ جھنکار کا قرعہ آناََ فاناََ میرے نام نکل آیا۔
پہلی رات میں نے چوبارے میں دیکھا تو اُس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ ٹکا رکھا تھا ، وقفے وقفے سے اُسے ا بکائی آ رہی تھی اور وہ بار بار اُگال دان کی طرف لپک رہی تھی۔ میں نے اُسی نظارے کو اُتم جانا۔ جب پیغمبر نے سورج کو دیکھا اور قیاس کر لیا کہ یہی میرا رب ہے۔ گمان کو یقین میں بدلنے والا اور خالی ہانڈی کو گوشت سے بھرنے والا ۔سورج غروب ، قیاس غلط۔ دوسری رات میں نے گہرائی میں جھانکاتو میں تھا، میرا ہاتھ اپنے پیٹ پر تھا، مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ پیغمبر نے چاند کو دیکھا اور گمان گزرا یہی وہ ورا الورا نہ ہو جسے اونگھ نہیں آتی، جو خود توبس جاگتا  ہے، مگر جاگنے اور سونے والوں دونوں کو پسند کرتا ہے ۔ نر اورمادہ کا امتیاز کیے بغیر دہانوں کو بھرنے والا، دہانہ جہاں بھی ہو ، جتنا بھی ہو۔ چاند بھی گیا یہ ماورائیت بھی ملیا میٹ۔ تیسری رات میں نے آسمان کی طرف گرد ن اٹھائی ( اپنے جائے قیام کی نسبت سے گردن اٹھائی کی جگہ گردن گمھائی کا استعمال یہاں بہتر معنی دے رہا ہے ) تو اُس کا ہاتھ وہیں پیٹ پر ہی تھا اور مجھے ابکائی آ رہی تھی۔ ہم دونوں نے کچھ بھی قیاس کرنے سے گریز کیا اور سو گئے۔ اپنی اپنی نیند۔ رات میں نے بار بار اٹھ کر دیکھا کہ ہم اپنی اپنی نیند ہی سو رہے ہیں نا، کہیں ایک دوسرے کی تو نہیں۔ تب سے عادت پکی ہو گئی اور یہی تین راتیں زندگی میں بار بار آ جارہی ہیں۔
’’آپ اپنی نیند کا سایہ بھی مجھ پر نہیں پڑنے دیتے‘‘۔
’’میں سوتا ہی کب ہوں۔ سوؤں تو سایہ بنے۔ سایہ بنے تو تم سے لپٹے۔ مگر میں تو جاگتا  رہتا ہوں۔ تمھارا میرا تعلق استوار ہو سکتا ہے اگر میں نیند کی مسلسل کوشش میں لگا رہوں ، ایک رات گہری نیند میں چلا جاؤں اورتم مجھے دن نکلتے ہی جگانے آ جاؤ۔ میں اُن لوگوں میں گنا جاؤں جو دستک یا کھجلی یا کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے بغیر بوقتِ صبح بستر چھوڑکر ہی نہیں دیتے۔ مگر میں تو ایسا نہیں۔ میں تو ایک بیداری کے اوپر دوسری بیداری کی تہیں لگاتا ہوں اور یوں بیداریوں کا محل کھڑا ہو جاتا ہے‘‘۔
تم اِ س محل میں کبھی آؤ نا۔ پہلی بار دیکھو گی تو لگے گا یہ کوئی جغرافیے کا مضمون ہے۔نقشے میں تم ، تمھاری ساری سوتنیں، مجھ سمیت تمھارے سارے شوہر ، اور اِن سب کے سارے بچے شہروں ، ملکوں اور برِ اعظموں کی طرح آباد ہیں اور سب کا کام بخوبی چل رہا ہے۔ میں گائیڈ بنا تمھیں کا ندھے پر بٹھائے گلیوں گلیوں سیر کراتا پھروں گا۔ جب شام ہوگی تو تمھیں گھر واپس چھوڑ آؤں گا۔ یہ تو تمھارا ایک پھیرا ہو گا اور میرا ایک شعر یا نظم کا ٹکڑا۔ پھر جب  آؤ گی تو پوچھتی پچھاتی آؤ گی، کایا کلپ کا مزہ لیتی ہوئی۔ محل وہاں نہیں ہوگا۔ آناتو دیکھنا کہ جغرافیہ کی جغادری مجھ سے زیادہ دیر تک نہیں ہو سکی ، میں نے سب نقشے زمین برد  کردیے ہیں اور اپنی جگہ واگزار کر الی ہے۔ تب میں گائیڈ کے نہیں مئورخ کے بہروپ میں تاریخ کے پہلے ورق پر تمھارا استقبال کروں گا۔پھر ورق بہ ورق تمھیں لیے پھروں گا اور آزاردانہ سیر و سیاحت کی اجازت دے دوں گا۔ محض گائیڈ ہی رہ جاتا تو ایسا ہر گز نہیں کرتا۔ میں تمھیں بتانے کی کوشش کروں گا کہ جغرافیے اور تاریخ میں کتنا زمانی اور کتنا مکانی بعد ہو تا ہے یا ہونا چاہیئے کہ مکان کو اپنی شناخت بدل کر زمان کی شناخت میں تحلیل ہونے کا پورا موقع اور اجازت مل سکے۔ مگر تمھارا آنا جانا یہیں پر ختم نہیں ہوگا۔ یہاں تو بس مجھے ماؤس اور کی بورڈ کی مدد سے نیا صفحہ منتخب کرنا ہے، یا پرانا ڈیلیٹ کرکے اُسی اسکرین پر اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں تم سے مزید کچھ باتیں کرنی ہیں۔ سو تمھیں آنا تو ہے اور مجھے تمھارا آنا دکھانا بھی ہے کہ کاغذ قلم کی قلت کا اب کوئی مسئلہ درپیش نہیں رہا۔ بس ذرا سستا لو ، جیسے محل کے ہر کمرے میں تمھیں نیند آ جایا کرتی تھی ، ویسے ہی تاریخ کی برجیوں میں تم ٹانگیں پسار کر اور دوپٹہ بارہ درری کے بارہ دروں میں برابر برابر  تقسیم کرکے دیر تک سو سکتی ہو ، میرے انتظار میں۔ جان لینا کہ میں نے تمھاری ساری سوتنوں اور سارے شوہروں کو بھی یہ گُر سکھا دیا ہے۔ بچوں کو سمجھا دیا ہے کہ ماؤں کے دودھ سے کم کسی مشروب پر راضی نہ ہونا ، اور باپوں کی تاج پوشی ہو تو کبھی رنجیدہ خاطر نہ ہونا کہ ایک نہ ایک دن تمھاری باری بھی آئے گی۔
اب آ بھی چکو ، جغرافیہ تاریخ کے پیروں تلے آ کر کچلا جا چکا ہے ، اور تاریخ  کو تہذیب نے کھا لیا ہے۔میں نہ گائیڈ رہا ہوں نہ مئورخ ۔ تہذیب سے لدے اِس دور میں چوراہے بیچ کُرتا اتارے مہذب بنا منتظر کھڑا ہوں۔ یعنی اب میری نئی حثییت مہذب کی ہے۔
جانے تمھارے چابک کب برسیں ۔

Related posts

Leave a Comment