ہمارے خان صاحب ! ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
………

ہمارے خان صاحب !

………………….

مہذب قوموں کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ بل کہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور ایک طویل عرصہ تک ان اصول و ضوابط کی پابندی قوموں کو تہذیب کے دائرے میں داخل کرتی ہے۔ یوں ہی چند صدیاں پیچھے نظر دوڑائیے ، کون کہاں کھڑا تھا؟ سب کھل جائے گا۔ یوروپ کن حالوں تھا، تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ خطہ عرب سے پھوٹنے والی روشنی کی شعائیں کہاں کہاں پہنچیں۔ روزمرہ زندگی سے لے کر امورِ سیاست و معاشیات تک اسلام کے اصولوں نے دنیا کو اپنی روشنی سے منور کیا۔ یوروپ والے شاید اس بات کو کھلے بندوں تسلیم نہ کریں لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انھوں نے اس روشنی سے خوب کسبِ فیض کیا۔ دوسری جانب عجیب کام یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دین کی اصل تعلیمات سے روگرداں ہوتے گئے۔ اور نتیجہ ۔۔دنیا آگے، بہت آگے نکل گئی اور ہم کہیں راہ میں رہ گئے ۔ ہم زندگی کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ امورِ حکمرانی میں بھی اپنے دین کی تعلیمات سے غافل ہو گئے۔
پاکستانی سیاست کے بازار میں آواز لگانے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ہر دور میں ایک دو نئی جماعتوں کا وجود پانا اور ایک دو کا نیست ہو جانا ، جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے، معمول کی بات رہی ہے۔بات دراصل یوں ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور ہمارے ہاں نئے سے نئے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ذرا گننا شروع کر دیجیے کہ 1947ءسے 2013ءتک کتنی پارٹیاں آئیں اور کتنی گئیں۔ کچھ تو وہ ہیں کہ جن کی سلطنت رکشوں کی پشت پر درج ہونے سے زیادہ نہیں۔لے دے کے مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی ہی بچتی ہیں۔ ان تینوں کے بعدمتحدہ قومی موومنٹ کا نمبر آتا ہے۔جماعتِ اسلامی تو ہمیشہ سے کچھ مخصوص لوگوں کی جماعت رہی ہے اور عوامی حلقوں میں اس کو وہ پذیرائی کبھی حاصل نہ ہو پائی، جس کی اتنی منظم جماعت سے اُمید کی جا سکتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی موجودہ حال تک پہنچنے میں خدا جانے کتنے پینترے اور لبادے تبدیل کیے ہیں۔ تنظیمی معاملات میں متحدہ قومی موومنٹ بھی جماعتِ اسلامی سے کسی طور پیچھے نہیں لیکن جس حالت سے اس جماعت کا خمیر اٹھا، یعنی مہاجر قومی موومنٹ، اِس جماعت پر لفظ ”مہاجر “ کا ایسا ٹھپا لگا کہ نام تک تبدیل کردینے سے نہیں دُھل پایا۔رہ گئیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ تو یہ دونوں جماعتیں واقعتاً جماعتیں کہلانے کی حق دار ہیں۔ باقی بے چارے تو کچھ دائیں، کچھ بائیں، وقت گزر جاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ میں کئی دھڑے بنے لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) ان سب میں نمایاں رہی اور قومی سطح پر مسلم لیگ کی پہچان برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ رواں سال انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا معاملہ بھی خوب ہے۔ جناب عمران خان نے ورلڈ کپ جیتا، ہیرو بنے، کچھ کر گزرنے کا عزم تھا، کینسر کے مریضوں کے لیے ہسپتال بناڈالا۔ ہیرو تو پہلے ہی تھے، گراف تھوڑا اور اُوپر آ گیا۔ جناب عبدالستار ایدھی کہ انسانیت کی بے لوث خدمت میں ہمارے ہاں ان کا کوئی ثانی نہیں، نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عمران خان بہت اچھا بچہ ہے، نیک کام کرنے کا بہت جذبہ رکھتا ہے لیکن اپنے کام کی تشہیر بہت کرتا ہے۔ جناب ایدھی نے یہ بھی بتایا کہ وہ عمران خان کو کئی بار تشہیری مہموں سے منع کر چکے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کی تو ساری عمر انھی کاموں میں گزری ہے۔ وہ اِسے ایک فرض سمجھ کر کر رہے ہیں۔ وہ بھلا تشہیری مہموں کو کس طرح پسند فرما سکتے ہیں۔ خان صاحب کے ذہن میں اپنا ہی کوئی لائحہ عمل تھا۔ وہ بذریعہ تشہیر دوسروں کو انسانیت کی خدمت کی طرف مایل کرنا چاہتے تھے۔ خان صاحب کے اندر تو جیسے ایک لاوا بھر ا ہوا تھا، وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو کہیں رکتے نہیں۔ پھر انھوں نے تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی اور دُکھی، لاچار پاکستانیوں کی راہنمائی پر مایل ہو ئے۔ پاکستانی عوام کہ ایک عرصہ سے غیر متوازن ،قلیل المعیادجمہوری حکومتوں اور آمریت کی چکی میں پِس رہے تھے، انھیں تو جیسے خان صاحب کی شکل میں اپنا مسیحا مل گیا۔واہ واہ بہت ہوئی، لیکن میدانِ سیاست کے داؤ پیچ خان صاحب کے بس کے نہیں تھے۔ سو کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کے مصداق انھوں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کا ہجوم کر لیا جو دوسری جماعتوں میں اپنے حصے کا کام مکمل کر چکے تھے اور کسی نئی آماج گاہ کی تلاش میں تھے ۔یہاں عوام کو پہلا دھچکا لگا کہ یہ تو وہی سال ہا سال کے دیکھے بھالے چہرے یہاں بھی آن دھمکے۔ پھر انتخابات کی تیاری میں خان صاحب نے خدا جانے کس خیرخواہ (بظاہر) کی باتوں میں آ کر اپنی زبان خراب کر لی۔ انھوں نے انتخابی جلسوں میں وہ بولی بولنا شروع کر دی، جو کم از کم انھیں کسی طور زیبا نہ تھی۔یہ عوام کے لیے دوسرا جھٹکا تھا۔ پھر بھی عوام نے خان صاحب سے وابستہ اپنی توقعات کم نہیں کیں اور انتخابات میں اچھی خاصی نشستیں اُن کے ہاتھ لگیں۔ خیبر پختون خواہ کی حکومت خان صاحب کے حصے آئی۔ خان صاحب نے یہاں ایک اور غلطی کی کہ جناب پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ بنا ڈالا۔ انھوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں ہی ایک دعویٰ کیا کہ انشاءاللہ اب لوگ میاں شہباز شریف کو بھول کرپرویز خٹک کی مثال دیا کریں گے۔ پھر خٹک صاحب بھول گئے کہ لوگ میاں شہباز شریف کی مثال کیوں دیتے ہیں۔ البتہ انھوں نے یاد رہ جانے کا ایک نیا راستا نکالا۔ اور یقین ہے کہ اب تک وہ جو کچھ کر چکے ہیں، عوام انھیں بھولیں گے نہیں، اُن کی مثال بھی دیا کریں گے لیکن ایک ناکام حکمران ہونے کے ناطے، روم جل رہا تھا اور۔۔۔۔۔۔خٹک صاحب کو ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ابھی خان صاحب پر بات چل رہی ہے۔ خان صاحب کا خون بڑھاپے میں بھی ٹھنڈا نہیں پڑا، وہ بھول گئے کہ کہ نئی حکومت بنتے ہی انھوں نے عوام سے کیا قول و قرار کیے تھے۔ اشارتاً یاد دلاتا چلوںکہ ان دنوں وہ جمہوریت کے تسلسل کو جاری رکھنے کی بابت کچھ فرما رہے تھے۔ خان صاحب نے اپنے پختہ کار اور زیرک رفقاءکی باتوں بل کہ سازشوں میں الجھ کر حکومت کے خلاف ایک مسلسل محاذ کھول دیا۔ عوام، غریب عوام، جمہوریت، پاکستان، نیا پاکستان۔۔۔۔ سب کہیں پیچھے رہ گئے اور خان صاحب نے اُس چیز کو سیاست سمجھ لیا جسے محض ”رولا غولا“ کہا جانا چاہیے۔بس اب خان صاحب ہیں اورخالی نعرے۔ ہرزہ سرائیاں ہیں اور بہتان بازیاں۔ انھیں کسی نے یہ سبق پڑھا دیا ہے کہ سیاست میں دماغ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہاں ان سیاسی پارٹیوں کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ جن کا ہمیشہ سے کام ہی آوازیں لگانا ہے۔ ان میں کچھ ایسے محب وطن بھی ہیں جو ”پاکستان“ کو ”رولستان“، ”مسائلستان“ اور” قبرستان“ کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ ان کے کارنامے دیکھیں توگھر کے نہ گھاٹ کے اور دعوے گویا پاکستان کو بنانے اور بعدازاں بچانے والے یہی ہیں۔ہماری خان صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہجوم کو دل کی بجائے دماغ کو کام میں لاتے ہوئے دیکھیں اور فیصلہ کر یں کہ وہ خود کیا چاہتے تھے اور کس چیز کے خواہاں ہیں۔ہمیں خان صاحب سے بڑی توقعات تھیں اور تھوڑی بہت اب بھی ہیں، اللہ انھیں اچھے برے کی پہچان عطا فرمائے کہ ایسے لوگ اگر دوسروں کے ہاتھوں میں کھیلنا بند کر دیں تو ملک و قوم کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۶ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment