افتخار شاہد ۔۔۔ ترے انکار سے، اقرار سے ڈر لگتا ہے

ترے انکار سے، اقرار سے ڈر لگتا ہے
دھوپ سے، سایۂ دیوار سے ڈر لگتا ہے

نیند آتی ہے تو سونے نہیں دیتا خود کو
خواب اور خواب کے آزار سے ڈر لگتا ہے

ہم تو اپنوں کی عنایت سے پریشاں ہیں میاں
کب ہمیں شورشِ اغیار سے ڈر لگتا ہے

روز بڑھ جاتی ہے کچھ درجہ گھٹن سینے کی
روز کٹتے ہوئے اشجار سے ڈر لگتا ہے

اب کہاں کوئی خریدار زلیخا جیسا
اس لیے مصر کے بازار سے ڈر لگتا ہے

آپ کو کیسے خریدار بھلے لگتے ہیں !!
آپ کو کیسے دکاں دار سے ڈر لگتا ہے!!

Related posts

Leave a Comment