اوصاف شیخ ۔۔۔ خدا کے حصے کے ہم سے سوال ہو رہے ہیں

خدا کے حصے کے ہم سے سوال ہو رہے ہیں
ہمارے ساتھ بھی کیا کیا کمال ہو رہے ہیں

کھرچ دیا ہے شریک حیات نے دل سے
تجھے بھلائے ہوئے تیس سال ہو رہے ہیں

ترا سراپا پرویا تھا ہم نے پھولوں میں
لے تیرے تذکرے اب ڈال ڈال ہو رہے ہیں

افق پہ لگتا ہے سورج ابھرنے والا ہے
جو کج کلاہ تھے ان کے زوال ہو رہے ہیں

ہمارے وقت کو برباد کرنے والے پر
برا ہے وقت ، برے اس کے حال ہو رہے ہیں

وہ شرق و غرب کا راہی ہے سیدھے رستے کا
ہمارے رستے جنوب و شمال ہو رہے ہیں

ہمارے سچ کی نشانی چمکتی پیشانی
غروب ہوتے ہوئے بھی مثال ہو رہے ہیں

کوئی دنوں میں وہ ہر ریت توڑ ڈالے گا
ہمارے رابطے اس سے بحال ہو رہے ہیں

Related posts

Leave a Comment