لنبیٰ مقبول ۔۔۔ عالَمِ اضطراب میں گزری

عالَمِ اضطراب میں گزری
زیست پیہم سراب میں گزری

وقت کے داؤ پیچ تھے ایسے
زندگی احتساب میں گزری

حاصلِ عمر کی طلب میں دوست
جو بھی گزری حَباب میں گزری

آرزوئیں شمار کیا کرتے
تشنگی بھی عذاب میں گزری

زندگی ساری رِند کی افسوس
مست ہو کر شراب میں گزری

رنج پہچان جاتے ہیں ہر بار
بارہا میں نقاب میں گزری

اک شناور کی دوستی میں عمر
خاک میں مِل کے، آب میں گزری

سامنے کچھ ہیں لوگ پیچھے کچھ
ہست اِسی پیچ و تاب میں گزری

تھا ہر اک سے گریز پہلے ہی
خود سے بھی اجتناب میں گزری

زندگی تھی اَدا مجاہد کی
مستقل انقلاب میں گزری

روگ ایسا غنیمِ جاں سے ملا
عمر پل پل عتاب میں گزری

Related posts

Leave a Comment