آفتاب خان ۔۔۔ قدیم گھر کے در و بام درج کرتا ہوں

قدیم گھر کے در و بام درج کرتا ہوں
میں بیچنے کے لیے دام درج کرتا ہوں

نہ مِل سکے گا خریدار دل کی بستی کا
جو بِک چکے ہیں، وہ گلفام درج کرتا ہوں

لہو نچوڑ کے تن کے شکستہ برتن میں
میں اپنی زیست کے آلام درج کرتا ہوں

اس اہتمام سے یہ زندگی گزاری ہے
جو آج کرنے ہیں وہ کام درج کرتا ہوں

فلک سے مجھ پہ اُترتے ہیں جو حر وفِ سخن
میں شاعری کے وہ الہام درج کرتا ہوں

جو اُس کو کہنا تھا، مجھ سے بیان ہو نہ سکا
سو ڈائری میں وہ پیغام درج کرتا ہوں

جو معتبر ہیں، مرے دل کے وہ قریب ہیں سب
میں صرف خاص نہیں، عام درج کرتا ہوں

مطالعہ میں ہیں فرعونِ وقت کے قصّے
ورق ورق کئی اہرام درج کرتا ہوں

سخن وَری کا مجھے آفتاب کہتے ہیں
کرن کرن میں ترا نام درج کرتا ہوں

Related posts

Leave a Comment