اکرم کنجاہی ۔۔۔ آج ذرّے ہیں زمیں کے وہ جو ہارے ہوئے ہیں

آج ذرّے ہیں زمیں کے وہ جو ہارے ہوئے ہیں
جیت جن کا بھی مقدّر تھی ستارے ہوئے ہیں

ضبط گرداب نے کس جرم میں کشتی کر لی
میری آنکھوں سے تو اوجھل بھی کنارے ہوئے ہیں

وہ جو بیتاب تمنّا تھے زمانے بھر کے
چاند سورج سے فلک زاد تمہارے ہوئے ہیں

دم تو پتھر کا نکل جاتا ہے آزار کے ساتھ
کیا تعجب ہے جو دل درد کے مارے ہو ئے ہیں

زلف جاناں کی سنواریں تو ہے زیبا صاحب
زلف جیون کی جو پہلے سے سنوارے ہوئے ہیں

دیکھ دنیا نے جبینوں پہ سجا رکھے ہیں
جو بھی ذرّے مری دھرتی کے ستارے ہوئے ہیں

بال و پر کو بھی سَکَت خالقِ ارض و سما دے
پر شکستہ بھی تو تیرے ہی اُتارے ہوئے ہیں

کرچیاں بن کے کریں چشمِ تماشا پا نی
یوں شکستہ سبھی فطرت کے نظارے ہوئے ہیں

چشمِ تر سے جو بہے خاک ہوئے ہیں آنسو
اشک دل سے جو رواں تھے وہ ستارے ہوئے ہیں

Related posts

Leave a Comment