جلیل عالی ۔۔۔ تھے نگاہوں میں جن راستوں کے شجر، اور تھے

تھے نگاہوں میں جن راستوں کے شجر، اور تھے
دل مسافر کو درپیش تھے جو سفر، اور تھے

بس رہا تھا مری سوچ کے آسمانوں پہ جو
اور ہی شہر تھا اس کے سب بام ودر، اور تھے

وہ جو چہروں پہ لکھا ہوا خوف تھا ،اور تھا
وہ جو سینوں کے اندر پنپتے تھے ڈر ،اور تھے

سب جبینیں وہاں تھیں زمیں بوسیوں میں مگن
کٹ کے کچھ اور اوپر اٹھے تھے جو سر، اور تھے

شوق طغیانیوں پر بھی سنبھلی رہیں دھڑکنیں
ڈوب کر جن میں ابھرا نہ دل وہ بھنور ،اور تھے

اُن زمانوں بھی اپنے قلم کی زباں تھی یہی
لفظ جب شہرِ تحریر میں معتبر اور تھے

Related posts

Leave a Comment