دانش عزیز ۔۔۔ ہوجائیں کسی کے جو کبھی یار مُنافق

ہوجائیں کسی کے جو کبھی یار مُنافق
سمجھو کہ ہوئے ہیں دَر و دیوار مُنافق

بَن جاتا ہے کیسے کوئی سَالار مُنافق
یہ بات سمجھنے کو ہے دَرکار مُنافق

مُمکن تھا کبھی اُن کو میں خاطر میں نہ لاتا
ہوتے جو مقابل مرے دو چار مُنافق

اِ ن کو کسی بازار سے لانا نہیں پَڑتا
یاروں میں ہی مل جاتے ہیں تَیّار مُنافق

ناپید ہوا جاتا ہے اِخلاص یہاں پَر
سَر دار مُنافق ہے سرِ دار مُنافق

جو شَخص مُنافق ہے , مُنافق ہی رہے گا
اِک بار مُنافق ہو یا سَو بار منافق

سَچّائی زباں کاٹ کے چُپ چاپ کھڑی ہے
شُہرت کی بُلندی پہ ہیں اَخبار مُنافق

لِکھا ہے مُنافق نے مُنافق کا فَسانہ
اِس واسطے رکھے ہیں یہ کردار مُنافق

جِس شہر کی بنیاد مُنافق نے ہو رکھی
قائم وہاں ہوجاتی ہے سَرکار مُنافق

مخلص ہیں جو کھل کر مری تائید کریں گے
بھڑ کیں گے یہ سن کر مرے اشعار ، منافق

دانِش یہ حقیقت ہے بَھلے مانو نہ مانو
اِخلاص کا طے کرتے ہیں معیار مُنافق

Related posts

Leave a Comment