سحر تاب رومانی ۔۔۔ چاہتوں کے امیں چلے گئے ہیں

چاہتوں کے امیں چلے گئے ہیں
اِس مکاں سے مکیں چلے گئے ہیں

کہیں جاتے نہیں تھے لیکن آج
ہم اچانک کہیں چلے گئے ہیں

روشنی بزمِ شب میں تھی جن سے
وہ ستارہ جبیں چلے گئے ہیں

چند سامع ہیں اورمیں ہوں اب
سارے مسند نشیں چلے گئے ہیں

آسمانوں کی گفتگو سُن کر
لوگ زیرِ زمیں چلے گئے ہیں

ہر شکایت تری بجا ہے مگر
ہم وہیں سے وہیں چلے گئے ہیں

کوئی آیا گیا کہاں ہے یہاں
ہم تھے آئے، ہمیں چلے گئے ہیں

اور کچھ تو نہیں تھا اپنے پاس
اعتبار و یقیں چلے گئے ہیں

اُس سے بچتے ہوئے سحر ہم تو
اور اُس کے قریں چلے گئے ہیں

Related posts

Leave a Comment