شہاب صفدر ۔۔۔ نہیں جو حصۂ بازار کون دیکھتا ہے

نہیں جو حصۂ بازار کون دیکھتا ہے
نمائشِ پسِ دیوار‘ کون دیکھتا ہے

ہر آنکھ دیکھ رہی ہے طلوع کا منظر
بجھے دیے! ترا ایثار کون دیکھتا ہے

تلاش ِ نان و نمک میں ہے خلق سر گرداں
کتابِ حکمت و اَسرار کون دیکھتا ہے

سبھی کو فکر ہے ڈھلوان پر سنبھلنے کی
سہارا کس کو ہے درکار‘ کون دیکھتا ہے

ستارے کھیلتے ہیں کھیل رات بھر کیسا
بجز، قبیلۂ بیدار،کون دیکھتا ہے

ہے اُس طرف کی چمک جاذب ِ نظر از حد
پلٹ کے دھند کے اِس پار کون دیکھتا ہے

شہاب رنگ ِ طرب سے غرض ہے دنیا کو
دلوں کے ٹوٹے ہوئے تار کون دیکھتا ہے

Related posts

Leave a Comment