عزیز فیصل ۔۔۔ گھرانہ قیس کا، فرہاد کا ڈیٹا نہیں ملتا

(مزاحیہ غزل)

گھرانہ قیس کا، فرہاد کا ڈیٹا نہیں ملتا
ان اسلاف محبت کا کہیں شجرہ نہیں ملتا

مری اور مولوی کی ہے طلب میں فرق نقطے کا
مجھے جلوہ نہیں ملتا، اسے حلوہ نہیں ملتا

ترا تھیسز بھی اینویں ہے، مرا کھانا بھی پھیکا ہے
تجھے سرقہ نہیں ملتا ، مجھے سرکہ نہیں ملتا

یہ کہنا نادرا کا ہے،محبت کرنے والوں سے
مرا خلیہ نہیں ملتا، ترا حلیہ نہیں ملتا

ہے شاعر اور شوہر کی بہت ہمزاد محرومی
اِسے چرچا نہیں ملتا، اٰسے خرچا نہیں ملتا

وہ اس بیوی کا شوہر ہے جسے غصے کی حالت میں
کبھی باٹا نہیں ملتا، کبھی چھانٹا نہیں ملتا

پھنسے ہیں باپ اور بیٹا اسی مشکل میں مدت سے
اُسے کشتہ نہیں ملتا، اِسے رشتہ نہیں ملتا

دلِ کنگال کو اس ”’حاتمہ طائن”” کے در سے بھی
کبھی کھانا نہیں ملتا، کبھی آنہ نہیں ملتا

مجھے بزم ِصنم میں غیر کی بک بک کٹائی کو
کبھی موقع نہیں ملتا، کبھی ٹوکا نہیں ملتا

مسائل مختلف لگتے ہیں ڈینٹسٹ اور ماڈل کے
اُسے کِیڑا نہیں ملتا ، اِسے کپڑا نہیں ملتا

Related posts

Leave a Comment