عزیز نبیل ۔۔۔ نہ روح سے دھواں اٹھا ، نہ آنکھ ہی لہو ہوئی

نہ روح سے دھواں اٹھا ، نہ آنکھ ہی لہو ہوئی
یہ کس طلب کی چاندنی میں رات سرخ رو ہوئی
ہمیں تو اپنی جستجو بھی خود سے دور لے گئی
تمہاری جستجو تو پھر تمہاری جستجو ہوئی
میں اپنی ذات کا سفر تمام کرکے رک گیا
پھر اس کے بعد راستوں سے میری گفتگو ہوئی
زمیں ٹھہر ٹھہر گئی، فلک سمٹ سمٹ گیا
کوئی صدائے نیم جان ایسے کو بکو ہوئی
ہر ایک آنکھ ریت تھی ہرایک دل سراب تھا
مگر وہ ایک تشنگی جو مجھ میں آب جو ہوئی

Related posts

Leave a Comment