محمد علی ایاز ۔۔۔ اک نظر سرسری چراغوں پر

اک نظر سرسری چراغوں پر
روشنی دھر گئی چراغوں پر

یہ بھی ممکن ہے کھل نہ پائے اب
اپنی یہ بے گھری چراغوں پر

اب تو اک ساتھ دیکھ لیتا ہوں
آگ اور آگہی چراغوں پر

روشنی سے الجھ رہے ہیں کئی
غور کر آخری چراغوں پر

زندگی موت کے گلے لگ کر
رقص کرتی رہی چراغوں پر

رات کے حسن پر دلالت ہے
شام کی دلکشی چراغوں پر

کیسے ممکن ہے بھانپ لے کوئی
دل کی موجودگی چراغوں پر

روشنی گفتگو میں در آئی
گفتگو جب چھڑی چراغوں پر

رات بھر کوئی پڑھتا رہتا تھا
عکسِ خوش چہرگی چراغوں پر

Related posts

Leave a Comment