پروین سِجل ۔۔۔ اک جہاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

اک جہاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام
اک گماں اور ہی میرے لیے اے روزِ تمام

ذائقہ آب و ہَوا کا مَیں بدلنا چاہوں
ہو زماں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

ماہ ِخورشید بھی اُبھریں تو نئے طور لیے
آسماں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

میرے قدموں کو چھوئے نقش کوئی اور زمیں
خاک داں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

رنگ وگل ہوں بھی ذرا اور طرح کے اب تو
بُوسِتاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

کاش ایسا ہو کہ پیغمبری ہو مجھ سے شروع
ہو جہاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

درمیاں اپنے اگر پھر سے جو ہو روزِالست
اک قِراں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

میرے منشور میں شامل ہو مری مرضی بھی
دے زباں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

ایک ہی بات سے ہم رندِ نظر ٹھہر ے ہیں
نکتہ داں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

شغلِ ہنگام بھی دن رات کا اب تو بدلے
امتحاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

سر پہ دستار ِ خلافت ہو الگ سے میری
خواجگاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

اب نئے سارے کے سارے ہوں گماں اور طرح
ہو سماں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

زندگی اور کسی رُخ سے ہو اے چشمِ سجلؔ
چیستاں اور ہی میرے لیے اے روزِتمام

Related posts

Leave a Comment