حماد نیازی ۔۔۔ رُکے ہوئے وقت کی نظم

رُکے ہوئے وقت کی نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہانی وقت کی بیزار سطریں لکھ رہی ہے اور” سمے دھیرے چلو، دھیرے چلو” کی اک صدا سینے کے ریگستان میں ماتم گزیدہ سر بریدہ خواہشوں سے ہمکلامی کر رہی ہے

ازل کی پہلی الماری میں بوسیدہ پڑے کچھ لفظ اپنے سب مقرر اور پوشیدہ معانی کھو چکے ہیں
ہوس آلود باغوں کا قدیمی پھل سمے کی گود میں گل سڑ چکا ہے اور اس سے اب سڑاند آنے لگی ہے

یہ دل ….. وحشت زدہ دل، ماتمی گریہ کناں اور مضطرب سے اک قبیلے کا وہ ہارا لشکری ہے جس کے تیر و تیغ سے اب ریت جھڑتی ہے.

عجب نادیدہ کرداروں کی تصویریں نظر کے کینوس پر ہر گھڑی بنتی بگڑتی ہیں
بدن سے جھڑتے ماہ و سال کی موہوم تصویروں کے ٹکڑے چنتے چنتے تھک گیا ہوں

کنیزِ صبح اپنی طشتری میں جامنی پھولوں کا گلدستہ لیے دہلیزِ شب پر جانے کب سے انتظاری ہے
گھڑی کی سوئیوں میں تھم گئی ہے زندگانی
مگر یہ رائگانی …..
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

Related posts

Leave a Comment