فیصل ہاشمی ۔۔۔ نظم ساتھ دیتی ہے

نظم ساتھ دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
بارشیں نہ آئیں تو
پیڑ سوکھ جائیں تو
کھیتیاں نہ بچتی ہوں
کھیتیاں بچانی ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

رات کی روانی میں
خوف ناک پانی میں
کشتیاں نہ چلتی ہوں
کشتیاں چلانی ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

جنگ کرنے والوں سے
بستیاں اجڑ جائیں
بستیاں نہ بستی ہوں
بستیاں بسانی ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

دوستوں کی آپس میں
چھوٹی موٹی رنجش ہو
دوریاں نہ مٹتی ہوں
دوریاں مٹانی ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

گرمیوں کے موسم میں
کیکروں کی چھاؤں میں
روٹیاں پکانی ہوں
لکڑیاں نہ جلتی ہوں
لکڑیاں جلانی ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

نظم ایک وعدہ ہے
عورتوں نے چوٹی سے
جس کو کَس کے باندھا ہے
نظم اک تعلق ہے
میں جسے نبھاتا ہوں
چھونپڑی کو آندھی اور آگ سے بچاتا ہوں
نظم ساتھ دیتی ہے

Related posts

Leave a Comment