حامدؔ یزدانی … تم بھی علامت ہو (اعزاز یافتہ شاعرجاہدؔالحق اور اس کی بنگلہ نظمیں)

تم بھی علامت ہو
(اعزاز یافتہ شاعرجاہدؔالحق اور اس کی بنگلہ نظمیں)
تحریر: حامدؔ یزدانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم بھی تو تصویر میں شامل اک تصویرہی تھیں
اک کھلتی تصویر
سینے میں در وا کرتی اک روشن سی تصویر۔۔۔
۔۔۔۔دیکھو نا، ارے دیکھو نا!
کیا تمہیں یہ تصویر دکھائی دیتی ہے؟
ابھی ابھی مِری آنکھیں تم کو ڈھونڈ رہی تھیں۔(تصویر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ریڈی !۔۔۔سمائل۔۔۔!‘‘
کلک۔۔۔کلک۔۔۔کلک۔
’’لیجیے، اپنا کیمرہ۔ تین تصویریں لی ہیں۔ ایک تو اچھی آہی جائے گی۔‘‘
ریڈیو ڈوئچے ویلے (دی وائس آف جرمنی) کولون کی رُکن اور جرمنی میں ہمارے اوّلین پیشہ ورانہ سفر کی میزبان فرانسیسی نژاد خاتون رینےؔ شوالر نے شہر بون کے قصبہ باڈہونف کے علاقہ روئن ڈورف میں ایستادہ ’’آڈے ناور ہاؤس‘‘ کی پختہ بیرونی سیڑھیوں پر کھڑے کھڑے آٹو فوکس نائیکون کیمرہ مجھے لوٹاتے ہوئے اوردل کش انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ پھروسط فروری کے ابرآلود سلیٹی سے یورپی آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
’’لگتا ہے، بارش پھرسے شروع ہونے والی ہے۔ کیوں نہ ہم اس کو شکست دے دیں اور اس سے پہلے ہی وفاقی پارلیمان کی عمارت کی سیر بھی کرلیں!راستے میں کافی بھی پی لیں گے۔میں شہر بون میں ایک اچھے کیفے کا پتہ جانتی ہوں۔۔۔ کیا خیال ہے؟ تو آئیے، جلدی سے بس کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔۔۔ یہ رستہ ڈھلوانی ہے، احتیاط سے، ذرا سنبھل کر۔‘‘
بین الاقوامی جرمن نشریاتی ادارے میں اردو، ہندی، بنگالی،انڈونیشیائی اور جانے کس کس زبان کے نو واردہم آٹھ پروڈیوسرخواتین و حضرات خاموشی سے،اپنی جیکٹیں اور کوٹ سنبھالتے ہوئے، نیچے سبزے میں گھری اکہری سڑک کے کنارے کھڑی سہ رنگ سیّاحی بس کی طرف لپکتی رینےؔ کے پیچھے پیچھے نیچے اترنے لگے جس نے ہمارے جواب یا رائے کا انتظارکرنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی تھی۔

آج ایک مدت بعد جرمنی میں لئے گئے اس گروپ فوٹو کو دیکھتے ہوئے کچھ دیر کے لیے تو میں واقعی کینیڈا سے غیر حاضر ہوگیاتھا۔برسوں پہلے کے اس منجمد لمحے نے رخش ِ یاد کو جانے کن وادیوں کی طرف دھکیل دیا تھا! دریائے رائن کے پہلو میں بچھے انگور کے باغات،طلسماتی کہانیوں سے آئے تاریخی محلات،کولون سے بون، برول، لِنز، فرینکفرٹ، ڈوسل ڈورف،وُوپرٹال،برلن اور لائپ سِش۔۔۔اور پھر یورپ کے زمینی، فضائی اور آبی راستے عبور کرتی آوارہ گردی جو ایمسٹرڈم، روٹردم، دی ہیگ، برسلز، لندن اور۔۔۔ اور۔۔۔کہاں کہاں گھماتی پھر سے واپس کولون لے آتی مہربان دوست امجدعلی کے پاس،اعجاز شاہ صاحب ، ناز بہن اور ممی کے پاس جن کے ہاں دن ختم ہوتے ہی مہمان نوازی کی فراخ دل روایت کا آغاز ہو جاتاتھا۔یہاں آبائی وطن سے دُور احباب کو خوش دلی سے جمع دیکھ کر باربار جناب یزدانی جالندھری کا یہ شعر ذہن میں گونج اٹھتا:

غنیمت ہے جو کچھ لمحے کو چند احباب مل بیٹھیں
وگرنہ اِس زمانے میں میسر ہے کہاں یہ بھی

مجھے یاد ہے ناز بہن اورشاہ صاحب کے ہاں، ایسی ہی ایک نِگھی مہمان نواز محفل میں دل کش، مہکتی بہاریہ شام کے جلو میں ایک پُر کشش، سانولے بنگالی نوجوان سے تعارف ہوا۔ اُس نے مجھے نہ پہچانا مگر میری یادداشت میں جگمگاتے باڈ ہونف کے گروپ فوٹو میں اس نوجوان کی صورت بہت واضح تھی۔ میں نے ازراہِ تعارف ہاتھ آگے بڑھایا:
’’حامد۔۔۔حامد یزدانی‘‘
’انتقاماً‘  اُس نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا:
’’جاہد۔۔۔جاہدالحق‘‘۔
اتنے میں ہماری رسمی مسکراہٹوں کے تبادلے میں اپنے دلآویز تبسم کو شامل کرتے ہوئے میزبان شاہ صاحب آگئے۔ شوخ لہجے میں بولے:
’’بھئی واااہ! دو شاعرایک ساتھ اور وہ بھی مسکراتے ہوئے۔۔۔اللہ خیر کرے۔‘‘
لفظ ’’شاعرــ‘‘ سنتے ہی مجھے محسوس ہواجیسے ہمارے ہاتھوں کی رسمی گرفت میں جذبے کی حرارت بھی آن شامل ہوئی ہو ، مسکراہٹیں قدرے گہری ہوگئی ہوں اور آنکھوں میں خوش گوار سا استقبالی استعجاب کھیلنے لگا ہو۔

دعوت سے واپسی پر ہم ایک دوسرے کے ہم۔راہ ہو لیے۔رات کے گہرے آسمان پر پورا چاند جگمگا رہا تھا۔چلتے چلتے میں یہ جان گیاکہ سابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے ادب خیز علاقے کومِلّا میں آنکھ کھولنے والے جاہدالحق کا تعلق ایک تعلیم یافتہ معزز گھرانے سے ہے، اس کے والد ڈاکٹر تھے۔ اس کی عملی زندگی کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ریڈیو پاکستان میں ملازمت سے ہواتھا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ ریڈیو بنگلہ دیش سے منسلک ہو گیا۔اندرونِ ملک خدمات انجام دینے کے بعد اب وہ کچھ سال کے لیے ریڈیو ڈوئچے ویلے (دی وائس آف جرمنی) کولون کی بنگلہ نشریات میں تعینات ہوا تھا۔ اور یہ کہ اس کی شاعری کے چارپانچ مجموعے بھی اشاعت پزیر ہوچکے۔ اس کی کچھ بنگلہ نظموں کے انگریزی زبان میں تراجم بھی ہوئے۔دنیا بھر کے کلاسیکی اور جدیداردو شعرا کے جِلو میں  وہ غالب،اقبال اور فیض کا بھی گرویدہ تھا۔وہ یہ بتا رہا تھا اور’سول شٹاک‘ کی طرف جاتی ایک خالی ٹرام یک دم ہمارے پاس سے گزر گئی۔ جاہد کو جانے کس شب کی کہانی یاد آگئی تھی:
گہری شب کی یہ خالی ٹرام
اس میں ہی بیٹھ کر ان محلّوں سے ہوتے ہوئے
بہتے رائن کو چھوتے ہوئے
دونوں ہم
چاند کے۔۔۔
پورے اس چاند کے پاس جائیں      (پورے چاند کے انتظار میں)
اس سے پہلے کہ اس کی نظم مکمل ہوتی ’بروہلر شٹراسے‘ اور’راڈربرگ گورٹل‘ کا چوراہاآگیاجہاں سے ہمارے راستے جدا ہونا تھے۔۔۔ تاکہ پھر مل سکیں اور مسلسل مل سکیں:
کیا میں پھر آؤں گا، ان بہاروں میں؟
جب پتے جھڑنے لگیں گے
حُسنِ فطرت کی رنگیں کتابوں میں
جب زرد پتوں کی اک بِھیڑ ہو گی
تو پھر ہم ملیں گے
ہاں، ملیں گے کئی بار۔۔۔ہم۔ (برُول)

یہ واقعی ہماری خوش قسمتی تھی کہ زرد پتے گرنے کے موسم کی آمد سے پہلے پہلے ہی ہمیں ملنے کے کتنے ہی مواقع میسرآگئے۔ ملاقاتیں ہوئیں، باتیں ہوئیں اور متواتر ہوئیں۔ پھر یوں ہوا کہ ہم عالمی فنون و ادبیات پر باتیں کرتے کرتے اپنی شاعری بھی ایک دوسرے کو سنانے لگے۔ سمجھنے کے لیے اردو سے بنگالی سے انگریزی۔۔۔انگریزی سے بنگالی سے اردو۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔جو بھی وسیلہ کارآمد ہوتا استعمال کرلیتے۔ چائے، کافی پیتے،امجد کے لائے ہوئے جرمن شارٹ کیک بسکٹ اور طاہرہ کے بنائے گہرے بھورے گلاب جامن اُڑاتے ہوئے شعر وادب کی راہ داریوں میں گُم رہتے۔

یورپ آتے ہوئے جاہد الحق ڈھاکہ سے اپنے اہلِ خانہ کو ساتھ نہ لایا تھا۔ گویابظاہر اکیلا آیا تھا۔ وہ کوملّا سے ڈھاکہ تک پھیلے مکالماتی راستے، شام شام حسن سمیٹتے پرسکون تالاب،راہ تکتی اونچی نیچی عمارتیں،آنکھیں جھپکتی ،دھیمی دھیمی لیمپ پوسٹ اوراپنے شب زدہ لکھاری دوست وہیں چھوڑ آیا تھا مگرحیرت یہ کہ وہ پھر بھی اکیلا نہ تھا۔ اور کوئی ہو نہ ہو، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس مسافت میں اُس کی محبت بہر صورت اس کے ہمراہ تھی ۔اس کی پہلی محبت یعنی شاعری۔

اس کی شاعری پڑھتے اور سنتے ہوئے مجھے لگتا کہ جاہد الحق بظاہرفانی لفظوں سے لافانی محبت تخلیق کرنے والا شاعر ہے۔اوراس محبت کا دوسرا یا شاید پہلا نام ’’شاعری‘‘ ہے جس کے بے کنار حُسن کو وہ سطر سطر بُنا کرتا ہے:
جب میں تمہیں بُنتا ہوں لفظوں کی بافت میں، بیل بوٹوں میں
یا تکمیل ِ خواب میں
تو مجھے تمہارا اَن دِیا دکھائی دیتا ہے
اُڑتا ہوا، بے کنار بادلوں میں۔ (رومال)

ان اُڑتے ہوئے ، دل کش اورپراسرار بادلوں ہی کے پار کہیں دُور ،محبت کے ایک عالمگیر جذبے کی بنیادوں پر، اُس نے اپنے تخیل کی ایک کثیر قومی بستی بسارکھی ہے جس کی حدود کہِیں توتاریخ ِ فن کی قدیم ترین دیواروں کو چھوتی ہیں اور کہِیں ان جانے خوابِ فرداکے سفر کی بے کرانیوں سے مصافحہ کرتی محسوس ہوتی ہیں۔اپنے وطن،مادری زبان اور قدرت کے بخشے رشتوں کی قدر کرتے ہوئے وہ اُس بین الاقوامیت کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا جو لہوکی صورت اس کے تخلیقی وجود کے رگ و پے میں رواں دواں ہے۔اس کی تخیلی بستی میں وقت، زبان اور قومیت کے امتیاز سے بے نیاز دنیا بھر کے فن کار سمائے ہوئے ہیں؛ ماضی کے بھی اور حال کے بھی، مشرق سے بھی اور مغرب سے بھی۔ یہاں کہیں آپ کو بودلیرؔ استراحت کرتامل جائے گا اور کہیں سارترؔاضطراب میں ڈوبا ہوا،اِدھر موپساںؔ افسانہ طرازہے اور اُدھر قاضی نذرؔالاسلام ڈھلتی رات کے ’’روزن‘‘ میں’’نعرۂ شباب‘‘ کی ’’باغی‘‘ سطریں گنگنارہاہے۔۔ کسی بل کھاتی نظم کے ترچھے موڑ پر آپ کی مُڈ بھیڑجوڑا شاکو سے آتے رابندر ناتھ ٹیگورؔ سے ہوجائے گی اور کسی پُر بہارباغ کی سیر کرتے ہوئے آپ اچانک سیالکوٹ کے علامہ اقبالؔ سے ٹکرا جائیں گے جو جاہد کی آمد سے کوئی اسّی برس پہلے جرمنی کے ساتھ جذباتی اورادبی رشتہ استوار کرچکا تھا۔جیسے جاہد الحق کولون میں دریائے رائن کی لہروں پر نظمیں اچھال رہا تھا ویسے ہی اقبالؔ ہائیڈل برگ میں دریائے نیکر کی ساحلی ہواؤں سے مخاطب رہا تھا۔اس کی نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے پر) آج بھی وہاں کندہ ہے۔’اقبال اُوفر‘ نامی سڑک آپ ہائیڈل برگ کے کاغذی نقشے پر بھی بآسانی تلاش کرسکتے ہیں لیکن جاہدالحق کی تخیلی بستی میں سفر کے لیے آپ کو احساس کے نقشے کی ضرورت ہوگی کہ راستے سب کے سب خوابوں سے بنے ہیں جن پربس آنسو ہیں کہ نشانِ منزل ٹھہرتے ہیں اور آنسوؤں کی زبان یکساں ہوتی ہے، بہائے وہ کسی بھی زمانے میں گئے ہوں، کسی بھی خطے میں، کسی کی بھی آنکھوں سے:
اگر تیری تسکین، تیری تسلی
غموں کا مداوا ٹھہرتی تو اے پیاری روشن سی لڑکی!
اِدھر جوڑا شاکُو
اُدھر دُور افتادہ اک سیالکوٹ
ایسے آنسو بہاتے بھلا؟ (کیا میں بودلیرکی طرح)

بہت دل چسپ ہے اس کی یہ بستی جس میں کرہ ارض کے کتنے ہی اہم ثقافتی مراکز تمثیل در تمثیل چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں پیرس ہے تو وہاں ڈھاکا، اِدھر کولون ہے تو اُدھرروم۔ اِس طرف برلن ہے تو اُس طرف ایمسٹرڈم۔ابھی کوئی برسلز کے افق پرطلوع ہوتی صبح سے مخاطب تھا:
اے برسلز!
تمہیں یاد ہے وہ گھڑی؟
جب میں نکلا تھا کولون سے
ڈھونڈنے کو اُسے (اُس کی تلاش میں)
اور ابھی پیرس کی گلیوں میں، شاں زے لیزے کے شب رنگ پہلو میں مدھ بھری چاندنی کی طرح بہتا چلا جارہا ہے:
کل شب
شاں زے لیزے جیسے بہاجارہا تھا
چاندنی میں
غودیں ؔ کے کھینچے کسی دائرے کی طرح
ایک روشن چاند روشنی اگل رہا تھا
اور مجھے اکسا کر سارے پیرس میں پھیلائے جارہا تھا (شاں زے لیزے میں پورا چاند)

جاہد کی یہ تخیلی بستی وقت کی قیود سے بھی آزاد ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل تینوں رُتیں موسمِ امکان کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے باہم لہراتے ہوئے ملتی ہیں۔ حیرت ہے کہ یہاں کوئی بھی فن کار اجنبی محسوس نہیں ہوتا۔ سبھی ہم۔عصر اور شناسا لگتے ہیں۔جاہد کے تو گویا وہ گہرے دوست ہیں۔وہ جب چاہے ان سے مل سکتا ہے۔ بات کرسکتا ہے حتٰی کہ شہرِ خموشاں میں بھی وہ کوئی نوحہ پڑھنے نہیں بلکہ ان سے مکالمہ کرنے جاتا ہے یا شاید پہلے سے جاری کوئی مکالمہ مکمل کرنے، انہیں شاعری سنانے، ان کی خیریت دریافت کرنے:
موپغناس گورستان میں
مرکزی دروازے سے داخل ہوکر
سارترؔ کو دائیں جانب چھوڑتے ہوئے
اور موپساں ؔ کو ذراسا اور آگے
میں سیدھا تمہاری قبر پر پہنچا ہوں۔
کہو، کیسے ہو؟ (بودلیرکی قبر پر)

عہد در عہداورسفر در سفر کشید کی گئی زندگی کی گونا گونی، دنیا کی رنگا رنگی اور تخلیقی زبان کے موثر استعمال کا گہرا شعور یہ سب مل کر جاہد الحق کی نظموں کو ایمائیت کا ایک ایسا لازوال حُسن عطا کرتے ہیں جس کی کشش عصری شعری منظر نامے ہی کو نہیں بلکہ فردا کے امکانی خاکوں کو بھی مسحور کیے دیتی ہے۔رات،چاند،ستارے،آنکھیں،سفر اور گھر اس کے محبوب استعارے ہیں۔ وہ قدیم جذبات اور مشاہدات کا اظہار کرتے ہوئے بھی جدید تر زندگی کی علامتوں اور کنایوں کو بے جھجک استعمال کرتا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ پانی کا تیز بہاؤ دریا کے پتھریلے کناروں کو بھی کاٹ دینے کی قوت رکھتا ہے مگر، وہ سوچتا ہے، اس کی آنکھیں تو پتھر نہیں ہے وہ کیونکر گُھلتی گاتی ہیں؛ بہتی جاتی ہیں کسی کے تعاقب میں:
میری آنکھیں پتھر تو نہیں ہیں
پھریہ کیوں گُھلتی جاتی ہیں، پتہ نہیں
کبھی کبھی چشموں کی صورت
تیرے تعاقب میں بہنے لگ جاتی ہیں۔(گیت)

ان گُھلتی جاتی آنکھوں کے بچاؤ کے لیے ایک روزوہ کہیں سے ایک عجیب فریج تلاش کرلیتا ہے۔ نیلا ریفرجریٹر یعنی نیند:
نیند ایک نیلا ریفرجریٹر ہے
اگر یوں نہ ہوتا تو آنکھیں کبھی کی گل سڑ چکی ہوتیں
اِس لیے میں بھی اپنی آنکھیں فریج کے اندر
ستاروں کے بھیگے سائے میں رکھتا ہوں
جب تمام راتیں ایک رات میں سماجائیں
جب پا لیں آنکھیں اپنی پناہ گاہ
اپنا گھر۔۔۔(نیند)

جاہد کی طبیعت میں روں دواں فنکارانہ بے چینی اور اضطراب اسے کہیں ٹکنے نہ دیتے تھے نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی باطنی طور پر۔ وہ ہردم ایک تازہ سفر کے لیے پر تولتا رہتا ۔جناب احمد مشتاق کا مصرعہ ’’یار سب جمع ہوئے رات کی خاموشی میں‘‘ گنگناتے ہوئے نئی صدی کی انگڑائی کے آس پاس یعنی نوے کی دہائی میں جب ہم اتفاقاً یورپ میں اکٹھا ہوئے تو جاہدالحق ہم میں سے کسی کو بھی ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ہردم سفرآمادہ، جیسے بادلوں پر سوار ہو، برق سے آشنائی استوار کرنے کا خواہاںہو اور شفق سے میل جول بڑھانے کی فکر میں ہو:
شفق کے ویک اینڈ پر، میں چہل قدمی کرتا ہوں
یادوں کی بندرگاہ پر:
نہیں جانتا،اور کتنے دن میں یہاں ہوں۔(شفق کے ویک اینڈ پر)

ایک ویک اینڈ سے لوٹتے ہی اگلے کا منصوبہ بنانے لگتا۔’’اگلے ویک اینڈ پر کیا کررہے ہو، حامدؔ؟‘‘ وہ دائیں کاندھے پر چمڑے کا سیاہ تھیلہ لٹکائے تیسرے پہر دفتر سے براستہ ’لِڈل‘ گھر واپس جاتے ہوئے فٹ پاتھ پر رُک کر اچانک سوال کرتا اور پھر میری تساہل آمادہ ٹال مٹول سُنے بغیر اپنی بات مکمل کردیتا:
ایسا کرتے ہیں کہ ہالینڈ چلتے ہیں، ایمسٹرڈم، ایمسٹرڈم۔۔۔فان گوخ میوزیم  دیکھتے ہیں۔۔۔پیرس کے لُوورے میوزیم جیسا بڑا تو نہیں ہے مگر اہم ہے۔ہاں ٹھیک ہے،یہ بہت اچھا پروگرام رہے گا، ایک دن ایمسٹرڈم میں۔۔۔طاہرہ کو بھی بتا دینا۔۔۔مل کر جائیں گے، بہت اچھا لگے گا۔۔۔موسم بھی غضب کاہے، دیکھو، دیکھو، دیکھو نا۔او، مائے گُڈ گاڈ۔۔کیسا حسیں ہے یہ یورپ کا موسم۔۔۔یہاں آنے کا موقع ملا ہے تو یہاں کے کلاسیکی فنی شہ پارے کیوں نہ دیکھیں جوزندگی اور روشنی کی علامت ہیں:
تمہاری انگوٹھی سے پھوٹتی روشنی،سارے شہر کو،قدیم کلاسیکی طرزِ تعمیر میں ڈھال دیتی ہے
میں فن کے کسی شاہکار پر دستک دیتا ہوں اور یکایک گھنگرو سے بج اٹھتے ہیں
میں محسوس کرتا ہوں کہ در حقیقت زندگی میں کوئی حقیقی زندگی نہیں؛
تم بھی علامت ہو۔ (علامت)

اور پھر ایک دن استعاروں اور علامتوں سے باہر موسمی پھولوں سے مہکتی بالکنی کی ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے ڈھلتی شام کے رنگوں کو گھورتے ہوئے اداس لہجے میں کہنے لگا:
’’دوست، اماں بہت یاد آرہی ہے، بہنوں للی اور مونی سے بات ہوئی لیکن جی نہیں بھرا، انھیں دیکھنے کو من کرتا ہے۔۔۔اماں اِس موسم میں ناریل کی مٹھائی بناتی ہے، کیا بتاؤں کیسا ذائقہ ہوتا ہے اس کا!۔۔۔تم ڈھاکا آؤ گے تو تمھیں بھی ضرور کھلاؤں گا اور کوملّا بھی چلیں گے۔ ہمارے پرانے گھر کا دالان اور وہ گنگناتے پیڑ اور مون سون کی پراسرار ، من چلی بارشیں۔۔۔اس کا دل گویا اڑتا چلا جارہاتھا:
مون سون کی رُت میں، میرا یہ دل اکثر
اِک آوارہ بادل میں ڈھل جاتا ہے۔۔۔‘‘ (گیت)
وہ کہتا چلا گیا:
’’اور ہاں، تم آؤ گے تو میٹھا میٹھا کٹھل بھی کِھلاؤں گا تمہیں، او مائے گُڈ گاڈ، بہت اچھا لگے گا تمہیں۔غالب اور اقبال بھی کھائیں گے تو آم کی لذت کو بھول جائیں گے۔ایسا مزیدار ہوتا ہے کٹھل، جیک فروٹ۔۔۔تم آنا ڈھاکا، تمہیں کھلاؤں گا۔‘‘
’’کیا غالب اور اقبال کو لیتا آؤں ساتھ؟‘‘ میں نے شرارت سے پوچھا۔
’’نہیں، نہیں انہیں لانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔وہ پہلے سے وہاںموجود ہوں گے۔‘‘ جاہد نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا۔پھر بات جاری رکھتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجہ میں کہنے لگا:
’’وہاں، وہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔۔۔دوست ہیں، باغات ہیں،ریڈیو ہے، تھیٹرہے۔۔۔شہید مینار بھی ہے جو مجھے نہیں بھولتا۔۔۔خاموش کھڑاشہید مینار۔۔۔!
میں جب بھی تجھے یوں ساکن کھڑا دیکھتا ہوں
تو مجھے شہید مینار یاد آجاتا ہے
دردناک یادوں سے بھرپور
تیری آنکھوں میں یہ سمندر سا کیا ہے؟ (خاموش انسان)

ایک خود کلامی ابھی جاری تھی: ’’لہو کے ایک درد ناک سمندر میں بھی بہت لوگ جان سے گئے تھے، حامدؔ۔۔۔بہت پیارے لوگ جان سے چلے گئے تھے۔۔۔او مائے گُڈ گاڈ۔۔۔کیسے کیسے لوگ!اب اس کا دل اس کی آنکھوں سے کچھ یوںجھلکنے لگتا تھا کہ چھپائے نہ چھپتا تھا۔تب اُس کا دل مجھے قاضی نذرالاسلام کا ’’قلبِ تپاں‘‘ محسوس ہونے لگتا جسے مخاطب کرکے ’’نذرُل‘‘ کہا کرتا تھا:
اے میرے طائرِ مجروح، میرے قلبِ تپاں
ذرا بتا تو سہی، میں تجھے چھپاؤں کہاں؟ (منظوم ترجمہ: یزدانی جالندھری)
’’کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا چھپاؤں!۔۔۔ہماری زبان،ہماری داستان، ہماری تاریخ۔۔۔تاریخ بہت دکھ دیتی ہے نا؟ ہاں، بہت دکھ دیتی ہے۔۔۔اچھی شاعری کی طرح، بہت دکھ دیتی ہے۔ہر ادبی فن پارے میں دکھ ہی تو بکھرا ہواہے۔ نہیں کیا؟ ورنہ غالبؔ کیوں کہتا:
ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی‘‘۔

یہ شعر پڑھتے ہوئے جاہدکسی طویل باطنی سفر پر روانہ ہوجاتا۔صوفے کے بازو پر ٹِکا رلکےؔ کا شعری مجموعہ، میز پرپڑی پھولدارپلیٹ میں ننھی ننھی خشک ہسپانوی مچھلیوں کا سالن،ابلے ہوئے خوشبو دارسفید چاول، ملی جلی سبزیوں کا اچار،ہری مرچ اور میں۔۔۔ہم سبھی اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگتے۔یہ سوچنے لگتے کہ آخر وہ جاتا کہاں ہے! کسی اور زمانے میں؟ کسی اور جہت میں؟ کسی اور دنیا میں؟ شاید کسی سے ملنے! ڈاونچی سے استفسار کرنے؟یاشاید مونا لیزا کے تبسم کی اداسی کا سبب جاننے!۔۔۔شاید:
تمہارے لبوں کی چمک نے
اداسی تبسّم سے پائی
پر آخر اُداسی ہی کیوں!
کچھ نہیں جانتا میں
اِن آنکھوں کے نیچے، خموشی سے تم
جمع کرتی ہو کیوں
روح کی دکھ بھری روشنی!
ہیں تمہاری ہنسی میں نہاں
آنسووں میں گھِرے
کِن زمانوں کے منظر!
یہ اندر کا گہرا سفر، طیش،
ترکِ تعلق کی دل چسپ باتیں
تمہیں دیکھنے آیا ہوں جس خوشی سے
وہ ساری خوشی غم سے منسوب کرتا ہوں میں۔(مونا لیزا)

ایک رات وہ کولون کی سرد اداسی میں لپٹی جھیل کے کنارے چوبی بنچ پر بیٹھا دور زردی مائل چاند کو دیکھے جارہا تھا۔اس کے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میں تھما سگریٹ دھیمے دھیمے شعلے کے پہلو سے سہما سہمادھواں آزاد کرتا جارہا تھا اور جاہد سوچ رہا تھا:
جب میں چاند کو چھونے لگتا ہوں
تو ایک سلگتا ہوا ایش ٹرے میرے ہاتھ میں آجاتا ہے
میں سگریٹ پیتا ہوں
خواب کی بیماری سے میری آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔(بیماری کی داستان)

میں جانتا تھا کہ خواب کا رشتہ رات سے ہے اور رات کا چاند سے۔چاند کلام کرتا ہے شب گزیدگان سے چاندنی کی زبان میں۔چاند سے ہم کلام ان شب گزیدگان میں کون ہوگا کہ سینے میں درد کی لَو نہ رکھتا ہو۔ رات بھر درد کشید کرنے والے دل صبح دم جانے کس کا انتظار کرتے ہیں۔ جناب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں:

چمکا ہے جو میرے دل میں شب بھر
اُس درد کی چاندنی میں آنا

ایسی ہی ایک چاندنی شب میں ایک خواب ناک محفل امجد علی کے اپارٹمنٹ میں گرم تھی۔ مشرق و مغرب کے فنی،سیاسی اور تاریخی موازنے زوروں پر تھے۔مغرب کے لیے کون سا نام زیادہ موزوں رہے گا:’’جمہوری مغرب‘‘یا ’’عیسائی مغرب‘‘؟
کیوں اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے خلاف بات کرنے والوں کو یہاں نہ صرف یہ کہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے بلکہ ان کی متوسط درجہ کی تخلیقات کی بھی خوب تشہیر کی جاتی ہے؟
اصلی تخلیق کار کے اتنے دشمن کیوں ہوتے ہیں؟کیوں ایک مقتدربادشاہ بھی ایک بے چارے کنگال شاعر سے حسد محسوس کرتا ہے؟
گوئٹے کے علاوہ اور کتنے پورپی شاعر ہوں گے جو مشرق کی فراست کے دلدادہ و معترف ہوں گے؟
کچھ ایسی ہی سنجیدہ قسم کی باتیں ہو رہی تھیں جنھیں سننے کے ساتھ ساتھ میں اپنے نئے وڈیو کیمرے پر فرینکفرٹ مشاعرے کی ریکارڈنگ بھی دیکھ رہا تھا اور کیمرے کے ایڈیٹنگ پینل کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کررہاتھا۔
’’یہ کیا تم اپنے کیمرے سے زرناب اور طاہرہ ہی کوریکارڈ کیاکرتے ہو!۔ اس کاکچھ بہتراور پیشہ ورانہ استعمال کرو، ایک فلم بناؤ، وڈیو فلم۔بہت اچھی رہے گی۔‘‘ جاہد کہنے لگا اور پھر ہمیں تکنیکی طور پر تیار رہنے کا کہہ کر کہانی پر کام کرنے میں جُت گیا۔ تحریر و ہدایات کی ذمہ داری خود سنبھا لی، کیمرہ امجد کے حوالے کیا اور مجھے اداکاری کے میدان میں اتار دیا۔یوں بنگلہ دیش سے جرمنی آئے ایک نوجوان کی کہانی ’’کہاں تک‘‘ کی صورت میں فلمبند ہونے لگی۔ یہ شارٹ وڈیو فلم ’’تھری ہارس پکچرز‘‘ کی پہلی اور آخری پیش کش تھی۔
میں نے جاہد سے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کہانی کس کی ہے۔ہاں، یہ ضرور پوچھا کہ یہ تین گھوڑے کون ہیں؟ جواباً بولا: ’’بس نام ہے ’تھری ہارس‘۔ کچھ نام تو رکھنا ہی ہوتا ہے نا۔‘‘ میں امجد کی طرف مُڑا تو اُس نے مسکراتے ہوئے آنکھوں آنکھوں میں سمجھایا کہ شکر کرو گھوڑا ہی قرار دیاہے ہمیں، کچھ اور نہیں۔

فلم سازی کے اس تجربے کے دوران میں مجھے پتہ چلا کہ جاہدشاعری ہی نہیں کسی بھی فن پارے میں جزئیات نگاری کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ اس مختصر فلم کی تیاری کے لیے طویل مباحث ہوئے۔ بار بار شارٹس لیے گئے۔ کیمرے کے رُخ کا بار بار تعین کیا گیا اور۔۔۔ بہت کچھ ہوا مگر فلم بہرحال مکمل ہوگئی۔ہم خوش تھے مگر پھر بھی:
ایک تاسف تو بہرصورت باقی رہتا ہے
کہ زندگی تو صرف ایک بار ملتی ہے اور وہ بھی ریزہ ریزہ
اور یہ اثاثہ ہے ناکامیوں کا۔۔۔
ہاں، اتنا سوچا ضرور کہ کاش میں تمہیں کوئی لازوال شے دے سکتا! (دوپہر)

عارضی سا انسان کسی کو کیا لازوال تحفہ پیش کرسکتا ہے۔بہرحال میں نے اپنی سی کوشش کی اور کولون، جرمنی میں جاہد کے قیام کے حوالہ سے ایک دستاویزی فلم بھی بنا ڈالی: ’’ایک شاعر، کولون میں‘‘ کے نام سے۔ جس میں جاہدالحق کے شب و روزکے چیدہ چیدہ مناظر محفوظ کر لیے۔اس کا گھر، اس کا دفتر،اس کا راستہ، شام کی سیراور شعر گوئی۔اس دستاویزی فلم کی ایک کاپی میں نے اسے بھی دے دی اس امید کے ساتھ کہ وقت کے جنگل میں عمر کا سفر طے کرتے ہوئے کبھی سستانے کو رُکے گا تو شاید یہ یادیں اس کی تسکین کا ساماں بن جائیں۔اس دستاویزمیں مناظر تھے، چلتا پھرتا جاہدالحق تھا،ریڈیو کے لیے پروگرام تیار کرتا ہوا، کیوسک سے سگریٹ خریدتا ہوا،عینک ناک پر ٹکائے آرام کرسی پر نیم درازدل ہی دل میں اپنی نظمیں پڑھتا ہوا:
پینگوئن کا شعری مجموعہ
تم نے ہمیں دیا تھا۔۔۔۔ہے
تم نے ہمیں دیا تھا پارکر کا جو پین
لکھنے کو۔۔۔وہ ہے
آسمان سے مٹھی بھر نیلاہٹ
جو تم نے دی تھی۔۔۔ہے
اپنی سانسوں سے لبریز سینہ بھر خوشبو
جو تم نے دی تھی۔۔۔ہے
اور اس اَن دئیے میں سے
جو لامحدود تم نے دیا تھا۔۔۔وہ بھی ہے۔(تحفہ)

کہنے کواس دستاویزی فلم میں کیا کچھ نہ تھا حتیٰ کہ پس منظر موسیقی بھی تھی۔ اگر کچھ نہ تھا تو وہ تھا مکالمہ۔ جس کے لیے ڈاکومنٹری کے آخری منظر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آخری منظر جب جاہد الحق اپنے ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھا ہے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ نگاہ ایرش فریڈ کے شعری مجموعے سے ہٹاتے ہوئے ریسیور اٹھاتا ہے اور کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے  پُر اعتماد لہجے میں کہتا ہے:
’’آ مِی۔۔۔جاہدالحق۔‘‘۔۔۔یعنی: ’’میں۔۔۔۔جاہد الحق‘‘۔
یوں دیکھنے والوں سے اس کا یہ یک طرفہ یا ادھورا مکالمہ میری ڈاکومنٹری فلم کو یعنی دوستی کے خلوص آگیں تحفے کو مکمل کر دیتا ہے۔

جاہد الحق ایک کھرا فن کار ہے اور وہ فن اور فن کار دونوں سے محبت کرتا ہے اورجیسا کہ پہلے عرض کیا فنون کے ضمن میں وہ محدودیت کا قائل نہیں یعنی وہ صرف شاعری یاشاعروں ہی کو نہیں سراہتا بلکہ تصویر کشی، مصوری،فلم،ڈرامہ اور موسیقی کی بھی خوب پزیرائی کرتا ہے۔یورپ میں قیام کے دنوں میں وہ جرمنی کے اندر ہی نہیں گھوما بلکہ اس نے آس پاس کے اور بھی کئی ملک کھنگال ڈالے۔ وہاں کے فنی اثاثوں کو دیکھا، وہاں کی ثقافتی اقدار کا مشاہدہ کیا، وہاں کی صبحوں کو محسوس کیا اور وہاں کی شاموں کو اپنی نظموں میں پرویا جن میں سے کچھ نظمیں میں نے اس کے ساتھ مل کر اردو کے قالب میں ڈھال لیں۔جاہد کی یہ نظمیں جرمنی اور ڈھاکا کے اردو مشاعروں میں خوب سراہی گئیں خاص کر اُس کی نظم ’’الوداع‘‘ کی گونج جرمنی کی اردو فضا میں تادیر سنائی دیتی رہی جس میں وہ کہتا ہے:
جانا ہے تو جاؤ
لیکن ٹکٹ کٹانے سے پہلے
اک لمحے کو سوچنا ’تم کو کہیں نہیں جانا‘
آخر تم کیوں جاؤ گی
دوری کی دھند بڑھاؤ گی !
سنو، سنو کاؤنٹر پر کہنا:
’’اک ٹکٹ ۔۔۔کہیں نہ جانے کا ! ( الوداع)

ہمارے لیے وقت واقعی تھم سا گیا تھا۔زندگی معمول کی ایک ڈگر پر رواں دواں تھی مگر ہمیں کہِیں بھی تو نہیں جانا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ موسم مستقل رہے گا؛ایک جاری و ساری بہار چھائی رہے گی مگر جانے کب اور کیسے، شاید جاہد کی کسی نظم کا تعاقب کرتے ہوئے ،زرد پتے گرنے کا موسم ہماری زندگیوں میں بھی در آیا۔۔۔وہ دن آ ن پہنچا جب ریڈیو ڈوئچے ویلے میں مدتِ ملازمت پوری ہونے پر جاہدکو واپس اپنے ڈھاکاجانا تھا۔اس دن کولون کی سڑکوں کے کنارے دوریہ کھلی جنگلی گلاب کی جھاڑیوں میں، دریائے رائن کی مسحور کُن لہروں کے دوش پر، آبی پرندوں سے اٹے کال شوئرر تالاب کے گردا گرد پھیلے سبزہ زار کی فضاؤں میں،تاریخی کیتھڈرل ’ڈوم‘ کے پہلو میں بھٹکتی مخمورہواؤں میں اسی کی نظم کے یہ مصرعے مہک رہے تھے:
اور پھر
یہ دن بھیگتا جارہا ہے یادوں کے احساس سے
فراموشی کے پُل پر، میں دیکھ رہا ہوں
اپنا ہی سایہ۔۔۔کانپتاہوا، لرزتا ہوا
مگر کیا کروں؟جانتا ہوں کہ کہا نہیں کرتے:
’’رُک جاؤ‘‘۔(الوداع)

سو، وہ رُکا نہیں۔وقت کبھی رکتا ہے کیا ! ۔۔۔اورپھر میں بھی اپنے لاہورلوٹ گیا۔۔۔اس سے بچھڑنے کے دکھ سے قطعِ نظرمیں یہ سوچ کر خوش تھا کہ جاہد واپس اپنے منظر میں لوٹ گیا ہے، اپنے بابا کی یادوں کے پاس اور اپنی ماں کے آنچل کے شفیق سائے میں جسے وہ حرف حرف اپنی نظم کے تار وپود میں سمویا کرتا تھا:
اپنے بابا کی قبر کو مس کرکے،صحن کے تالاب کو عبور کرتے ہوئے
سسکیاں بھرتا، میں موسمِ گرما میں دمکتے چودھویں کے چاند سے نیچے اتر آؤں
اور بس رو دُوں۔تمہارے آنچل کے دریچے سے لگ کر رو دُوں۔
ماں! میں واپس آگیا ہوں
ماں!میں واپس آگیا ہوں۔ (واپسی)

سفر چاہے کتنا بھی طویل ہو اس سے واپسی تو ہوتی ہی ہے۔ہم بھی لوٹ آئے تھے جرمنی سے۔جہاں مشرقی اور مغربی حصوں کے فاصلے مٹ چکے تھے مگر نہ جانے کب وقت نے عدم رابطہ کی ایک دیوارِ برلن سی اِدھر ہمارے درمیان اٹھا دی تھی۔ ہمارے بیچ میں جانے کب، کیسے خاموشی کاگویا ایک عہد حائل ہوتا چلا گیاتھا۔اسی خاموشی کو ساتھ لئے میں مستقل طور پرکینیڈا ٓبسا۔

جاہد ڈھاکا میں رہا مگر شعری محفلوں میں شرکت کے لیے ملکوں ملکوں گھومتا رہا۔شاعری سنتا اور سناتا رہا۔ اس کی کتابیں بھی شائع ہوتی رہیں اور ان کی پزیرائی بھی ہوتی رہی۔اس دوران میں اس نے شاعری کے ساتھ ساتھ ساتھ ناول بھی لکھے اورافسانے بھی اور اپنی ادبی کارکردگی کے صلہ میں ملک کا سب بڑا ادبی اعزاز بھی حاصل کرلیا جس کی خواہش اس کے دلِ درویش میں بھی چٹکی بھر جایا کرتی تھی۔

پھرعرصہ بعد خط وکتابت نے ہمارے درمیان رابطہ کچھ کچھ بحال کیا۔۔۔بے قاعدہ سا رابطہ۔۔۔اب کچھ دن ہوئے ہیں کہ سماجی روابط نے برقیاتی استعانت سے استفادہ کرتے ہوئے جو عالمی جال بچھایا ہے اس میں ہم سب جکڑے گئے ہیں۔اس جال نے ہمیں دُور رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے قدرے مربوط کردیا ہے۔اب میں فیس بُک پر جاہد کے نت نئے شعری مجموعوں سے متعارف ہوسکتا ہوں، اس کی ادبی مصروفیات کی خبر رکھ سکتاہوں اور اس کی تازہ ترین تصویر بھی دیکھ سکتا ہوں۔۔۔ایک منجھے ہوئے تخلیق کار کی تصویر،ایک پُر خلوص دوست کی تصویر:
اک کھلتی تصویر
سینے میں دروا کرتی اک روشن سی تصویر۔۔۔
۔۔۔۔دیکھو نا، ارے دیکھو نا!
کیا تمہیں یہ تصویر دکھائی دیتی ہے؟
ابھی ابھی مِری آنکھیں تم کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ (تصویر)

پھر سوچتا ہوں تصویرکتنی بھی یادگار کیوں نہ ہو مگر ہے تو  عکس ہی۔۔ ۔ اصل جاہد تو اپنی شاعری میں کہیں چھپا بیٹھا ہے۔۔۔ اُسے ڈھونڈنے ہمیں ادھر ہی جانا پڑے گا۔اگر یقین نہ آئے تو اک ذرا دستک د ے کر دیکھیے’’ فن کے کسی بھی شاہکار پرـ‘‘، اُس کی کسی بھی نظم پر۔ جاہد الحق آپ کے سامنے کھڑا ہو گاکسی ان چھوئی خوب صورت علامت کی طرح:
’’ ہیلو، آ می جاہدالحق۔۔۔‘‘
وہ کہے گا ایک سوچتی ہوئی مسکان کے ساتھ۔
۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment