عہد
سمیٹا ہے جو میری کرچیوں کو
کہیں اب توڑ مت دینا مُجھے تم
مِرے نزدیک جب آئے ہو اِتنے
کہیں اب چھوڑ مت دینا مُجھے تم !
۔۔۔۔۔۔
انتظاریہ
جانِ من ، تیرے انتظار میں مَیں
اور کچھ زہرِ ہجر پی لوں گا
جیسے مر مر کے جی رہا ہوں مَیں
یونہی مر مر کر کے اَور جی لوں گا
۔۔۔۔۔۔
’’تُم‘‘
دیکھے تو تھے شہکار کئی حسن کے میں نے
اِتنا مَیں کسی سے متأثّر نہ ہؤا تھا
جو رنگ مہک اُٹّھے ہیں اب میری غزل میں
لگتا ہے کہ اب تک تو مَیں شاعر نہ ہؤا تھا !
Related posts
-
ابتدا ۔۔۔ خالد علیم
اِبتدا ۔۔۔۔۔۔ تو لازوال ہے ، سب کچھ تری بساط میں ہے مرا وجود شب و... -
میر تقی میر ۔۔۔۔ رباعیات
کیسا احساں ہے خلق عالم کرنا پھر عالمِ ہستی میں مکرم کرنا تھا کارِ کرم ہی... -
خالد عرفان ۔۔۔ نوجواں لوگ پجامے کو برا کہتے ہیں
نوجواں لوگ پجامے کو برا کہتے ہیں پینٹ پھٹ جائے تو قسمت کا لکھا کہتے ہیں...