نسیمِ سحر ۔۔۔ قطعات

عہد
سمیٹا ہے جو میری کرچیوں کو
کہیں اب توڑ مت دینا مُجھے تم
مِرے نزدیک جب آئے ہو اِتنے
کہیں اب چھوڑ مت دینا مُجھے تم !
۔۔۔۔۔۔
انتظاریہ
جانِ من ، تیرے انتظار میں مَیں
اور کچھ زہرِ ہجر پی لوں گا
جیسے مر مر کے جی رہا ہوں مَیں
یونہی مر مر کر کے اَور جی لوں گا
۔۔۔۔۔۔
’’تُم‘‘
دیکھے تو تھے شہکار کئی حسن کے میں نے
اِتنا مَیں کسی سے متأثّر نہ ہؤا تھا
جو رنگ مہک اُٹّھے ہیں اب میری غزل میں
لگتا ہے کہ اب تک تو مَیں شاعر نہ ہؤا تھا !

Related posts

Leave a Comment