سیدضیا حسین ۔۔۔ گِر جائے گی آخر کو یہ دیوار کِسی دِن

گِر جائے گی آخر کو یہ دیوار کِسی دِن
بن جائے گا اِنکار ہی اِقرار کسی دن

اِس آس پہ گزرے ہیں کئی سال مہینے
آئے گا پلٹ کر وہی اتوار کسی دن

مانگیں گے مرادیں سبھی عشّاق یہاں پر
بن جائے گا مرقد مِرا دربار کسی دن

یوں دُور سے اِس دل کی سدا کیسے سنو گے
پاس آئو، سنو، اِس کی یہ گفتار کسی دن

سنتے ہیں شِفا ملتی ہے دیدار سے تیرے
آ بیٹھیں گے در پر تِرے بیمار کسی دن

بچپن سے یہی سوچتے آئے ہیں برابر
ہو جائیں گے مرضی کے بھی مختار کسی دن

خوش ہوتا ہوں میں سوچ کے دل میں یہی اکثر
بن جائیں گے پودے بھی تو اشجار کسی دن

اک تیری نظر میں تو سبھی لوگ بُرے ہیں
اپنا بھی ذرا جانچ لے کردار کسی دن

نازاں ہے تُو جن پر وہ سدا ساتھ نہ دیں گے
منہ پھیر کے چل دیں گے سبھی یار کسی دن

لگتا ہے یہ خوش فہمی حقیقت بھی بنے گی
پائیں گے سزا چوک میں غدّار کسی دن

مظلوم کے ہاتھوں میں گلا ہو گا تمہارا
لگنا ہے تماشا سرِبازار کسی دن

غزلوں کو مِری عام سی کہتے ہو تو کہہ لو
آخر کو یہ کہلائیں گی شہکار کسی دن

ہر روز ہی رہتا ہے ضیا! ؔ شکوہ کناں تُو
چھُٹ جائیں گے تیرے سبھی آزار کسی دن

Related posts

Leave a Comment