نوید صادق ۔۔۔ جانے ٹوٹا تھا آسمان کہ دل (علی اصغر عباس کی غزل)

جانے ٹوٹا تھا آسمان کہ دل
(علی اصغر عباس کی غزل)

سوچ رہا ہوں ، بات کہاں سے شروع کی جائے، علی اصغر عباس کی شخصیت سے، علی اصغر عباس کی غزل سے، علی اصغر عباس کی نظموں سے ، حمدوں نعتوں سلاموں یا کالم نگاری سے… بات شخصیت کے حوالے سے کی جائے تو ایک ہنستا مسکراتا چہرہ… کم از کم میں نے علی اصغر عباس کو رنجور کبھی نہیں دیکھا۔دھیما لہجہ، دوسروں کو اپنے دامِ محبت میں گرفتار کر لینے کو یہ خوبیاں بہت ہیں۔ لیکن شخصیت محض انھی دو تین چیزوں سے تو عبارت نہیں، ہنستے چہرے کے پیچھے… یہ شخصیت بھی عجیب چیز ہوتی ہے، نفسیات دان اس کی عجیب و غریب توجیحات پیش کرتے رہتے ہیں۔ تخلیق انسان کی شخصیت ہی کا اظہاریہ قرار پاتی ہے۔ علمِ نفسیات کسی مشاہدے، کسی تجربے کے شعر بننے تک کے عمل کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے۔میں نفسیات کی محض الف بے سے واقفیت رکھنے والاادب کا طالب علم ان معاملات کی زیادہ تفصیلات میں تو شاید نہ جا پاؤں لیکن کوشش کروں گا کہ کچھ حق ادا ہو جائے۔

کہا جاتا ہے کہ علی اصغر عباس کی شاعری مشکل ہوتی ہے ۔ وہ جان بوجھ کر اپنی شاعری میں مشکل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس ’’مشکل‘‘ کا کوئی پیمانہ تو ہے نہیں، ایک لفظ جو میرے لیے بہت مشکل ہو، ضروری تو نہیں کہ ادب کے کسی دوسرے قاری کے لیے بھی ایسا ہی ثابت ہو۔ جس لفظ کے لیے مجھے لغت کا سہارا درکار ہو ، ہو سکتا ہے دوسرے قاری کے لیے وہ لفظ اس کے روزمرہ میں شمار ہوتا ہو۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن ایک چیز غرابتِ لفظی بھی ہوتی ہے۔ جس کے تحت الفاظ اپنے استعمال میں اجنبی محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ لفظ عام قاری کے لیے مشکل قرار پاتے ہیں اور اسے لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ لیکن یہ لغت کے سہارے والی بات سے کم از کم یہاں تو اتفاق نہیں کر سکتا… یوں ہی درسی کتب میں شامل کر دی گئی ہے۔ لغت کہاں اور کسے نہیں دیکھنا پڑتا لیکن اس میں وقت وقت کی بات ہے، قاری کے وسعتِ مطالعہ اور vocabulary میں تدریجی وسعت کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ لفظوں کے اجنبی پن کی حد کیا ہے، ہے بھی کہ نہیں۔ اس سے پہلے کہ بات کہیں زیادہ ہی دور نکل جائے اور پھر یہ سوچنا پڑ جائے کہ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی، علی اصغر عباس کی شاعری کی طرف لوٹنا مناسب ہو گا۔
علی اصغر عباس کی شاعری میں مشکل الفاظ کی بات ہو رہی تھی تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ علی اصغر عباس کے قاری کون لوگ ہیں۔ اس سوال کا جواب اتنا مشکل بھی نہیں : کوئی بھی اس کا جواب دے سکتا ہے۔ تو میں بھی اپنے احساس اور تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ علی اصغر عباس کا قاری کوئی عام قاری نہیں ہو سکتا۔ سستے جذبات اور سطحی احساسات کے اظہار میں دلچسپی رکھنے والا قاری علی اصغر عباس کا قاری ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کسی زمانے میں… لیکن اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا۔اور اس بات سے سب واقف ہیں کہ موضوعات اپنی پیچیدگی کے حسبِ حال اپنا سانچہ، جس میں الفاظ اور ان کی نشست و برخاست کی بنیادی اہمیت ہے، ساتھ لے کر آتے ہیں۔یوں ان موضوعات کے قارئین… پڑھے لکھے باشعور قارئین کے لیے ان کے پسندیدہ موضوعات کا احاطہ کرتے یہ اشعار اور ان میں استعمال کیے گئے الفاظ اجنبی نہیں رہتے۔ اب یہ سوال تو شاعر سے کیا جانا چاہیے کہ اس نے قبولِ عام قسم کے موضوعات کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ ویسے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑ رہی ہے؟
علی اصغر عباس کی شاعری کا بغور تدریجی مطالعہ اس بات کی شہادت کو کافی ہے کہ اول دن ہی سے ان کی شاعری میں عامیانہ پن اپنے لیے کوئی جگہ نہیں بنا سکا۔پھر جن موضوعات کی طرف شروع سے ان کا جھکاؤ رہا ہے، اُن کے لیے کرافٹ بھی کم و بیش اسی نوعیت کا درکار تھا۔لیکن یہاں کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں آسان زبان میں کہے گئے اشعار یا یوں کہ سہلِ ممتنع میں کہنے والوں کی توہین کا ارتکاب کر رہا ہوں کہ سہلِ ممتنع کی رائج تعریف پر پورے اترنے والے اشعار بھی ہر کس و ناکس کے بس کے نہیں ہوتے اور بڑے بڑے موضوعات کا احاطہ کرتے ایسے اشعار اردو شعر کی تاریخ میں بہ کثرت دست یاب ہیں۔ علی اصغر عباس کے ہاں آپ کو ایسے اشعار بھی جگہ جگہ ملیں گے یہ اور بات کہ وہ خود شاید ایسے اشعار کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں۔ اپنی اب تک کی گفتگو کی دلیل میں علی اصغر عباس کے چند اشعار پیش کرتا ہوں:

حاصلِ زیست تو ہمارے یار!
آفرینش سے پہلے کے دن تھے

پلٹ کے آئے گا فردا ، گذشتہ کی جانب
نگار خانۂ امروز کی نشانی رکھ

میرا ماضی کریدنے والے
عمرِرفتہ بھی مجھ کو لوٹا دے

یہ شگوفے بھی تو ہیں رنجِ گلستانِ شہاں

اشکِ خونبار کہ جو رشکِ جہانگیری ہے

زندگی کے بڑے جھمیلے ہیں
ہم اکیلے تھے، ہم اکیلے ہیں

رات خالی پڑا رہا بستر
جانے ٹوٹا تھا آسمان کہ دل

حرفِ آغاز تھا محبت کا

جوڑتا تھا وہ داستان کہ دل

لیجیے صاحب! انھی چند اشعار نے جو بغیر کسی چناؤ کے درج کیے گئے، علی اصغر عباس کی شاعری کے بڑے موضوعات کی طرف واضح اشارے دے دیے۔آفرینش سے دھیان کہیں کا کہیں جا نکلا، مستقبل کا ماضی کی جانب رجوع … انسان ترقی کے مدارج طے کرتا جس نادیدہ منزل کی سمت گام زن ہے وہاں تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں پھر شاید واپسی کا سفر…لیکن اس سارے میں حال کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اپنے جیسے انسانوں کے دکھ اور پھر محبت …محبت! محبت کی بات پہلے کرنا بنتا ہے۔
محبت کی بات کی جائے تو علی اصغر عباس کے ہاں اس حوالہ سے کافی اشعار ملتے ہیں، لیکن وہ یہاں بھی عامیانہ روش سے گریز کرتے ہوئے ایک اپنا ہی جہان بسا لینے کے تمنائی نظر آتے ہیں،اور میرا یہ کہہ دینا بجا ہو گا کہ وہ اس معاملے میں کامیاب رہے ہیں۔کوئی شک ہو تو ان دو اشعار پر پھر غور کیجیے:

حرفِ آغاز تھا محبت کا
جوڑتا تھا وہ داستان کہ دل

رات خالی پڑا رہا بستر

جانے ٹوٹا تھا آسمان کہ دل

محبت کے آغاز ہی میں محبوب کے رویہ کو ایک خاص زاویہ سے دیکھنے کا عمل اور بعد ازاں ہجر میں ایک انوکھے منظر کی تشکیل علی اصغر عباس کی انفرادیت پر دال ہے۔ محبت انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اس کی توجیحات فلاسفہ کے ہاں کچھ اور ہیں تو نفسیات دانوں اور zoologyکے ماہرین کے نزدیک کچھ اور لیکن سرِ دست میں ان سب کے فکر سے گریز کرتے ہوئے اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمارا شاعر کچھ بھی تو ویسا نہیں چاہتا جیسا عام لوگوں کے معاملات میں پایا جاتا ہے۔ وہ دنیا بھر سے ہٹ کے جینا چاہتا ہے۔ اسے قرب بعد اور بعد کرب محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ہاں ہجر و وصال کے اپنے پیمانے اور ان سے متعلقہ احساسات و جذبات کو بیان کرنے کا اپنا ایک انداز ہے جو خالص اس کا اپنا ہے۔معاملاتِ محبت کا احاطہ کرتے چند مزید اشعار ملاحظہ فرمائیے:

یہ عشق پیڑ اُگایا نہیں اُگا ہے خود
چراغ ہم نے جلایا نہیں جلا ہے خود

گھنے درختوں کے سائے میں کون اترا ہے

سنہری دھوپ کی سب آن بان ختم ہوئی

ملیں گے ہم تجھے، پہچان سے باہر ملیں گے
ملاقاتوں کے ہر امکان سے باہر ملیں گے

میں اپنے آپ سے پہلے ملا تھا آخری بار
اسے تو بعد میں ملنے گیا تھا آخری بار

بچھڑتے وقت محبت بڑے عروج پہ تھی

چراغ بجھنے سے پہلے جلا تھا آخری بار


محبت میں یہاں تک آ گئے ہیں
وصال و ہجر میں وقفہ نہیں ہے

محبتوں کو جنھوں نے فروغ دینا تھا
انھیں تو لوگوں نے اس شہر سے نکال دیا

شب گزاری کو میسر تھا یہ ساماں اصغرؔ
اوڑھ لی غم کی ردا اور بچھائے آنسو

علی اصغر عباس کے بڑے موضوعات میں سے ایک موضوع کائنات کی ابتدا سے پیش تر …کیا تھا؟ کیوں تھا؟ کیسا تھا؟ جیسے سوالات سے بڑھ کر ان موضوعات پر انتہائی خوداعتمادی سے رائے زنی ملتی ہے۔ ایسے سوالات اور ان پر سوچ بچار روزِ اول سے انسان کا مقدر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہو کہ انسان ہمیشہ اپنی بنیاد کے تجسس میں رہا ہے۔ لیکن اتنی صدیاں گزر جانے کے باوجود انسانی فکر کی رسائی محض قیاس آرائیوں اور قیافوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ جدید انسان کا مسئلہ تومزید آگے نکل چلا ہے کہ سائنس اور دیگر علوم کی حیرت انگیز دریافتوں اور انکشافات کے بعد بھی انسان کی بے بسی… فطرت اسے ایک حد تک ہی آگے بڑھنے دیتی ہے۔ ایک موت ہی کو لے لیجیے، سب کچھ حاصل کر چکنے کے بعد بھی انسان اس پر قابو نہیں پا سکتا۔ کائنات کی حیثیت ایک سرائے سے زیادہ نہ ہو سکی جس میں مسافر رات کی رات قیام کر کے آیندہ کے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

ایک دل چسپ حقیقت ہے مرا بننا بھی
جس نے جو مجھ کو بنایا میں وہی بنتاہوں

نقش بر آب زمانے کی طرح ہوں میں بھی

دیکھ مٹتا ہوں ابھی اور ابھی بنتا ہوں

یہ کائنات معمہ نہیں کرشمہ ہے
نگار خانۂ ہفت آسمان دیکھ لیا

اک سرد ہاتھ آگ سے کھیلا تھا رات بھر

آتش کدے کی راکھ نے سورج بنا دیا

میں آج کڑیوں سے بیٹھا کڑیاں ملا رہا تھا
صدی صدی جوڑتا، زمانے تک آ گیا ہوں

اپنی رودادِ سفر جو لکھنے بیٹھیں گے کبھی
نامکمل چھوڑ دیں گے ہم کتابِ زندگی

یہیں سے عدم تکمیل کا احساس شروع ہوتا ہے۔ جس کے پہلو بہ پہلو احساسِ رایگانی انگڑائیاں لیتا نظر آتا ہے۔طویل سفر، کچھ کر گزرنے کی خواہش، کچھ پا لینے کی جستجو اور لگن …لیکن حاصل محض خالی ہاتھ، عدم رسائی… بات ذاتی ہو کہ اجتماعی، سیاسی ہو کہ سماجی، احساسِ رایگانی سوچتے ذہنوں کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ یہ احساس بڑھتے بڑھتے ایک بیماری … بیماری کچھ مناسب لفظ معلوم نہیں ہوتا لیکن کیا کیا جائے کہ ہم وابستگانِ ادب اس احساس کو جو بھی نام دے لیں ماہرینِ نفسیات اسے ایک بیماری بلکہ بہت سی نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد ہی گردانتے ہیں۔ میری مرادمغائرت یعنی alienation سے ہے۔ یاد رہے کہ اس احساسِ رایگانی اور مغائرت کو ہجر کا تڑکا بھی لگ چکا ہے۔ مغائرت کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ انسان بھری کائنات میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنے اردگرد کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دوست احباب یہاں تک کہ مظاہرِ کائنات اجنبیوں کا رُوپ دھار لیتے ہیں۔ اس احساس کی ایک انتہا پاگل پن بھی ہو سکتی ہے۔ احساسِ رایگانی، احساسِ مغائرت اور ان کی بنیاد بنتے محرکات کی تصویر کشی ذیل کے اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے:

چاند سورج کو سمندر میں ڈبو دیتا ہوں
روشنی اور اندھیرے کا ستایا ہوا میں

نبھا رہی ہے مرا ساتھ میری تنہائی
کہ ساتھ مرنے کا وعدہ وفا کیا ہوا ہے

ہم مسافر ہیں ہمیں کون یہاں پوچھتا ہے

کوئی رنجور نہ ہو بے سر و سامانی پر

مرے نصیب میں دیوار و در نہیں شاید
خجستہ حال ہوں، خستہ مکاں میں رہتا ہوں

شاعران احساسات سے یوں سُرخ رُو نکل جاتا ہے کہ شعر کہنے کا عمل ایک طرح کا کتھارسس کا عمل بن جاتا ہے، کتھارسس کے بعد انسان اپنی اصل حالت کی جانب لوٹتا ہے تو صورتِ حال کا تجزیہ بہتر انداز میں سامنے آتا ہے :

یہی تو سوچنا ہو گا حواس میں رہ کر
کہ انکسار ہے یا سرکشی دماغ میں ہے

حسابِ شب و روز کیسے کریں
ہمارے تو شام و سحر اور ہیں

معجزے سینت سینت رکھتا ہوں
کوئی ان کو چرانہ لے جائے

شب زدہ شہر کے لوگوں کی عجب خواہش ہے
رات بھی ختم نہ ہو اور سحر ہوجائے

شام تک پیڑ کڑی دھوپ سہے جاتے ہیں
تاکہ آسان مسافر کا سفر ہو جائے

علی اصغر عباس کی غزل کا مختصر جائزہ یہ ثابت کرنے کو بہت ہے کہ وہ ایک متوازن فکر رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کا دل حالات کی سنگینی پر کڑھتا ہے، لیکن اچھے وقت کی آس اور موجود میں تبدیلی کی امید انھیں اپنے سفر پر گام زن رکھتی ہے۔ علی اصغر عباس کی نظمیں بھی کم و بیش انھی احساسات کی حامل ہیں۔ ان کی کالم نگاری کی بات کی جائے تو یہ ایک دکھے دل کی آواز ہے جو اپنے جیسے لوگوں کی بے بسی اور اشرافیہ کی رذالتوں کے پردے چاک کرتی نظر آتی ہے۔

Related posts

Leave a Comment