عبدالقادر مُلا ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
……..

عبدالقادر مُلا

………..

1971ءہماری تاریخ میں ایک سیاہ سال تھا۔ پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ ہم اِدھر، تم اُدھر کا نعرہ لگا اور پھر ہم اِدھر اور وہ اُدھر ہو گئے۔ مشرقی پاکستان، 1971ءجب بھی، یہ الفاظ، یہ تاریخ کہیں دہرائی گئی، ہم نے اپنے بزرگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ کچھ غلطیاں اِدھر سے ہوئیں، کچھ اُدھر سے ۔۔۔ نتیجتاً ایک طرف مغربی پاکستان، پاکستان رہ گیا اور دوسری طرف مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا۔ اس موضوع پر بہت لکھا گیا۔ شاعروں ادیبوں نے اس تقسیم پر اپنے شدید کرب کا اظہار کیا۔ ہم مشرقی پاکستان کو کبھی نہیں بھول پائے لیکن اب اسے مشرقی پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش مان لیا تھا کہ عبدالقادر ملا کی سزائے موت نے ایک دم ان پرانے زخموں کو تازہ کر دیا۔ اس عظیم سقوط پر جو پڑھا تھا، جو بزرگوں سے سنا تھا، سب دھیان میں گونجنے لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن تو ماضی ہو گئے لیکن ان دونوں کے لگائے ہوئے نفرت کے پودے اب تک اپنی زہر آلود خوشبو ہواو¿ں میں گھول رہے ہیں۔
عبدلقادر ملا تھے کون؟ اُنھیں بیالیس سال بعد سزائے موت کیوں سنائی گئی؟ اُن کی شہادت کے بعد بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضا سوگوار اور متشدد کیوں ہے؟ بہت سے سوالات ہیں جو جواب چاہتے ہیں۔پروفیسر غلام اعظم کو90 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عبدالقادر ملا کو سزائے موت۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ 1971ءمیں بھارتی حکومت کی سازشوں، بنگالیوں کی نادانیوں، ہماری کم فہمیوں اور مفاد پرستیوں کے باعث جب حالات قابو سے باہر ہو گئے، تو پاک فوج کے شانہ بہ شانہ ملک کو تقسیم سے بچانے کے لیے جن لوگوں یا تنظیموں نے نمایاں کارنامے سرانجام دیے، اُن میں جماعتِ اسلامی سرِ فہرست ہے۔ جماعتِ اسلامی نے عوامی اور عسکری دونوں محاذوں پر پاک فوج کے ساتھ مل کر ہندو سازش و کاوش کا بھرپور مقابلہ کیا۔ ہم جنگ ہار گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور ذولفقار علی بھٹو دونوں، اللہ جانے، خوش تھے کہ سوگوار لیکن عوام بہت اُداس تھے۔ جماعتِ اسلامی کی ذیلی تنظیم ”البدر“ نے پاکستان کو تقسیم کے عمل سے بچانے کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ عبدالقادر ملا انھی محب وطن پاکستانیوں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے بڑی جاں فشانی سے پاکستان کے لیے کام کیا لیکن جب بنگلہ دیش بن گیا تو ان لوگوں نے وہیں رہنے کو ترجیح دی اور پاکستان نہیں آئے۔
یکم دسمبر 1971ءکے بعد شیخ مجیب الرحمن اور انڈیا کی طرف سے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جو زہر اُگلا گیا ،اُس کا ہلکا سا اندازہ اُن دنوں کے بنگلہ، بھارتی اوربدیسی اخبارات سے بہ خوبی ہو جاتا ہے۔انھی دنوں غیر جانب دار صحافیوں کی طرف سے شیخ مجیب الرحمن اور اندرا گاندھی کی شہہ پر ہونے والے پروپیگنڈوں پر حیرت کا اظہار بھی کیا جاتا رہا۔ بعض بین الاقوامی غیر جانب دار اخبارات اور مورخین نے شیخ مجیب الرحمن اور بھارتی لابی کے دعووں اور جھوٹے نعروں کی تردید بھی کی۔ یہ سب چلتا رہا لیکن بنگلہ دیش میں ان لوگوں کو کبھی بنگلہ دیش کا وفادار نہیں مانا گیا، جنھوں نے آٹھ ماہ اور بارہ روز جاری رہنے والی اس دردناک جنگ میں پاکستان اور پاکستانی افواج کا ساتھ دیا تھا۔یہاں تک کہ انھیں اور ان کی بعد کی نسلوں کو اب تک ”پاکستانی دلال“کا نام دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آتے ہی جماعتِ اسلامی کو بنگلہ دیش میں بین کر دیا گیا۔ یہ بین 1975ءمیں شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد اٹھا یا گیا۔
شیخ مجیب الرحمن اور ذولفقار علی بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا کہ 1971ءکی جنگ میں جو ہوا سو ہوا، اب اس میں کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی۔ شیخ مجیب الرحمن توکسی حد تک اس معاہدہ پر قائم رہا لیکن اس کی شرپسندی اس کی اگلی نسل میں اپنا روپ بہ خوبی دکھا رہی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے اپنے باپ کے اس وعدے سے انحراف کرتے ہوئے گڑھے مردے اکھاڑنے شروع کر دیے۔ اور 1971ءمیں پاکستانی افواج کا ساتھ دینے والوں پر مقدمات کا آغاز ہو گیا۔ پروفیسر غلام اعظم، عبدالقادر ملا اور دیگر رہنماؤں پر مقدمات کے بعد انھیں سنگین سزائیں دی گئیں۔ عبدالقادر ملا کو پہلے تو عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن حکومتِ بنگلہ دیش کے دباؤ پر عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا گیا اور پھر 65سالہ عبدلقادر ملا کو 12دسمبر 2013ءکو مقامی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے پھانسی دے دی گئی۔انا للہ و انا الیہِ راجعون۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے خاموشی اختیار کی، لیکن وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے اس پھانسی کو 1971ءمیں ملا عبدالقادر کی پاکستان سے وفاداری نبھانے کی سزا اور انتہائی الم ناک واقعہ قرار دیا ہے۔ عبدالقادر ملا کی شہادت پر بنگلہ دیش میں تو جیسے ایک آگ بھڑک اٹھی ہے، مختلف شہروں میں ہنگامے برپا ہیں۔کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔املاک جلا دی گئی ہیں۔ پاکستان میں بھی کم و بیش تمام بڑے شہروں میں عبدالقادر ملا کی غائبانہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد پرامن احتجاج کیا گیا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی جماعتیں اس واقعے پر اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔ بیالیس سال بعد شروع ہونے والی ان انتقامی اور غیر انسانی کاروائیوں پر اقوامِ متحدہ کی طرف سے سختی سے نوٹس لینا بنتا ہے کہ یہ سلسلہ عبدالقادر ملا کی پھانسی تک محدود رہتا نظر نہیں آتا۔حسینہ واجد اور ان کی حکومت ایک ایک کرکے عبدالقادر ملا جیسے اسلام پسندوں کو سخت سزائیں دینے میں پرعزم دکھائی دیتی ہیں۔ یہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ 1971ءمیں شکست کی دستاویز جس پر جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ ( مشرقی محاذ پر بھارتی اور بنگلہ دیشی فوجوں کے جنرل آفیسر کمانڈنگ) اور لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی(مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مشرقی پاکستان اور افواجِ پاکستان کی مشرقی کمان کے سالار) کے دستخط ہیں، کے متن میں صاف صاف لکھا ہے :” جنرل اروڑہ یہ عہد کرتے ہیں کہ جو لوگ ہتھیار ڈال دیں گے، اُن کے ساتھ جینیوا کنونشن کے مطابق عزت و وقار کا سلوک روا رکھا جائے گا۔ وہ یہ ضمانت بھی دیتے ہیں کہ ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور نیم فوجیوں کی صحت و سلامتی کا خیال رکھا جائے گا۔“ حسینہ واجد ، اُن کی حکوت اور بنگلہ دیش کی عدالتیں اس معاہدے کی پاس داری میں کس مقام پر ہیں، حالیہ واقعات سے واضح ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس دستاویز کو سامنے رکھتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ پر لائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۱۸ دسمبر ۲۰۱۳ء

Related posts

Leave a Comment