رضوان احمد … لکھنئو میں رثائی ادب اور میر انیس کا فن

لکھنئو میں رثائی ادب اور میر انیس کا فن مرثیہ کا لفظ رثا سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی عزیز شخصیت کے دنیا سے گزر جانے پر اپنے رنج و ملال کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن اردو میں مرثیے کی شناخت شہدائے کربلا کے علائم و مصائب اور ان کی مظلومیت کے خونچکاں واقعات کے بیان سے ہے۔ مرثیے کو اودھ کے شعرا نے اتنے عروج پر پہنچایا کہ ناقدین ادب اسے ایک صنف ماننے پر مجبور ہو گئے اور صرف یہی نہیں اسے اردو ادب کی اہم…

Read More

سہیل انجم …. لال قلعے کے اردو مشاعرے: روایت و حکایت

  لال قلعے کے اردو مشاعرے: روایت و حکایت ………………………………………………………… اردو مشاعرے ہماری ادبی و تہذیبی روایت کے امین اور ہماری لسانی بیداری کے عکاس ہیں۔ مشاعروں کی ایک الگ تہذیب ہے، ایک الگ رنگ ڈھنگ ہے۔یہ تہذیب ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اگر ہمیں اپنی زبان اور شعری سرمائے کا تحفظ عزیز ہے تو ہمیں معیاری مشاعروں کے انعقاد اور ان میں شرکت سے گریز نہیں کرنی چاہئے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور تلخ حقیقت ہے کہ اب عوامی مشاعروں کا معیار انتہائی پست ہو تا…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے

عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے مے خانے میں دنیا دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں جام اسی کو دے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے جام نہ دینے…

Read More

احمد فراز … شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے​

شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے​ گلِ حباب ہیں، سر میں ہَوا بہار کی ہے​ ​ ہجومِ جلوۂ گل پر نظر نہ رکھ کہ یہاں​ جراحتوں کے چمن پر رِدا بہار کی ہے​ ​ کوئی تو لالۂ خونیں کفن سے بھی پوچھے​ یہ فصل چاکِ جگر کی ہے یا بہار کی ہے​ ​ میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں​ کہ آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے​ ​ شمار زخم ابھی سے فراز کیا کرنا​ ابھی تو جان مری ابتدا بہار کی ہے​

Read More