احمد فراز … شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے​

شگفتہ دل ہیں کہ غم بھی عطا بہار کی ہے​ گلِ حباب ہیں، سر میں ہَوا بہار کی ہے​ ​ ہجومِ جلوۂ گل پر نظر نہ رکھ کہ یہاں​ جراحتوں کے چمن پر رِدا بہار کی ہے​ ​ کوئی تو لالۂ خونیں کفن سے بھی پوچھے​ یہ فصل چاکِ جگر کی ہے یا بہار کی ہے​ ​ میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں​ کہ آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے​ ​ شمار زخم ابھی سے فراز کیا کرنا​ ابھی تو جان مری ابتدا بہار کی ہے​

Read More

احمد فراز ۔۔۔ راتیں ہیں اُداس، دن کڑے ہیں

Read More

یہ میری غزلیں، یہ میری نظمیں ۔۔۔۔ احمد فراز

یہ میری غزلیں، یہ میری نظمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری غزلیں، یہ میری نظمیں تمام تیری حکایتیں ہیں یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں یہ شعر تیری شکایتیں ہیں میں سب تری نذر کر رہا ہوں یہ اُن زمانوں کی ساعتیں ہیں جو زندگی کے نئے سفر میں تجھے کسی وقت یاد آئیں تو ایک اک حرف جی اُٹھے گا پہن کے انفاس کی قبائیں اُداس تنہائیوں کے لمحوں میں ناچ اُٹھیں گی اپسرائیں مجھے ترے درد کے علاوہ بھی اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں ہزار غم تھے جو زندگی…

Read More

احمد فراز ۔۔۔۔۔۔ کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی

کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِِ گلستاں تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی اے دل گرفتۂ غمِ جاناں! سبو اٹھا اے کشتۂ جفائے زمانہ! شراب پی دو صورتیں ہیں دوستو دردِ فراق کی یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رو یا شراب پی اک مہرباں بزرگ نے…

Read More

احمد فراز ۔۔۔۔۔۔ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں‌بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا، جاناں! پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی پا بہ جولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا تم، فراز! اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے …………………………………………… مجموعہ کلام: خوابِ گل پریشاں ہے

Read More

احمد فراز …. ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے اُداسیاں ہوں‌ مسلسل تو دل نہیں‌ روتا کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار، مگر کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجے کہ تیر بن کے جسے حرفِ غمگساری لگے ہمارے پاس بھی بیٹھو، بس اتنا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے فراز تیرے جنوں کا خیال ہے، ورنہ یہ کیا ضرور وہ…

Read More