احمد فراز ۔۔۔۔۔۔ سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں‌بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا، جاناں!
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پا بہ جولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم، فراز! اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

……………………………………………

مجموعہ کلام: خوابِ گل پریشاں ہے

Related posts

Leave a Comment