رضوان احمد … لکھنئو میں رثائی ادب اور میر انیس کا فن

لکھنئو میں رثائی ادب اور میر انیس کا فن

مرثیہ کا لفظ رثا سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی عزیز شخصیت کے دنیا سے گزر جانے پر اپنے رنج و ملال کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن اردو میں مرثیے کی شناخت شہدائے کربلا کے علائم و مصائب اور ان کی مظلومیت کے خونچکاں واقعات کے بیان سے ہے۔

مرثیے کو اودھ کے شعرا نے اتنے عروج پر پہنچایا کہ ناقدین ادب اسے ایک صنف ماننے پر مجبور ہو گئے اور صرف یہی نہیں اسے اردو ادب کی اہم ترین صنف مانا گیا کیوں کہ شعرائے اودھ نے اس صنف میں اتنا مودا فراہم کر دیا تھا جو اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔

مرثیے کی پرورش عزا داری کی آغوش میں ہوئی اور اس کے ارتقا کے لیے اودھ کا ماحول بہت ساز گار ثابت ہوا کیوں کہ اودھ کے نوابین اہل تشعی تھے، جنہوں نے مرثیہ نگاروں کی سر پرستی کی۔

مرثیہ میر انیس سے قبل بھی لکھا جاتا تھا، خود ان کے والد میر خلیق بہت عمدہ مرثیہ گو تھے۔ اس کے علاوہ سودا نے بھی کئی اعلیٰ ترین مرثیے لکھے ہیں، لیکن اس فن کو میر انیس اور مرزا دیبر نے جن بلندیوں پر پہنچا دیا، اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ میر انیس خود کہتے ہیں:
   سبک ہو چلی تھی ترازوئے شعر
   مگر میں نے پلہ گراں کر دیا
 میرانیس کو مرثیے کا فن وراثت میں ملا تھا اور ان کے دوسرے دو بھائی میر انس اور میر مونس بھی مرثیہ گو تھے۔ انیس کے بعد ان کی اولاد میں بھی یہ فن پھلتا پھولتا رہا اور ان کے صاحب زادے میر نفیس اور پھر ان کے صاحبزادے، پوتے اور پر پوتے سب مرثیہ گوئی میں اپنے اپنے وقت میں استاد مانے جاتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے آخری دور تمدن کا یہ بھی ایک زمانہ ہے جو معجزہ سے کم نہیں کہ ایک ہی نسل سات پشتوں تک مسلسل شعر و شاعری کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تک قائم رہیں۔ غالباً دنیا کے کسی تمدن میں اس کی دوسری مثا ل نہیں مل سکتی۔ اسی لیے میر انیس فخر سے کہتے ہیں:

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب نے لکھنئو کے رثائی ادب پر بہت کام کیا اور اس موضوع پر بلند پایہ کتابیں تصنیف کی۔ انہوں نے اپنے رسالے” ادب“لکھنئو بابت مئی 1931ء میں میر انیس کے عنوان سے ایک نوٹ لکھتے ہوئے میر انیس کا وہ مرثیہ شائع کیا تھا جو اس سے قبل کہیں شائع نہیں ہو ا تھا۔ انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا تھا :

” خدائے سخن میر انیس مخفور نے غدر کے بعد اجڑے ہوئے لکھنئو کی تعریف میں سولہ بند کہہ کر کسی مرثیے میں شامل کر دئے تھے یہ بند ایک دو ورق پر خود حضرت مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مرحوم کے پر پوتے جناب محمد حسن صاحب فائز کے پاس موجود ہیں۔ انہیں میں سے نویں اور دسویں بند کا عکس ذیل میں دیا جاتا ہے۔ “
   ”جب لشکر خدا کا علم سر نگوں ہوا “

   ہر دل ہے عندلیبِ گلستانِ لکھنئو
   رضواں بھی ہے ارم میں ثنا خوانِ لکھنئو
   گلزار مومناں ہے زہے شانِ لکھنئو
   نعرے علی علی کے ہیں قربانِ لکھنئو
   کیوں سر خرو نہ ہوں کہ چمن سبز وار ہے
   دیکھوں کہ اس خزاں پر بھی ایسی بہار ہے
   مانی بھی اس معرکہٴ ماتم میں دنگ ہے
   گلشن کو صدقہ کیجے یہ مجلس کا رنگ ہے
   نوحوں میں ان کے نالہٴ بلبل کا ڈھنگ ہے
   ماتم کے ولولے میں بقا کی امنگ ہے
   دس روز ماتم شہِ دیں میں گزرتے ہیں
   جیتے رہیں یہ لوگ کہ رونے پہ مرتے ہیں
 میر انیس کے مرثیے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب کے اعلیٰ عناصر نظر آتے ہیں۔ اس میں ہندوستانی ثقافت کی چلتی پھرتی تصویریں ملتی ہیں اور پھر کربلا کے وہ مناظر اودھ کے مناظر میں مدغم ہو جاتے ہیں:

زینب کی دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانو ئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
 
ظاہر ہے کہ ان اشعار میں جو باتیں کہی گئی ہیں ان کا تعلق عرب کی خواتین سے نہیں ہے،مانگ میں صندل وغیرہ جیسی اصطلاحات کا تعلق ہندوستانی خاتون سے ہے۔ لیکن انیس کی خصوصیت یہی ہے اور یہی ان کا کمال بھی ہے کہ وہ جن شخصیات کو پیش کرتے ہیں انہیں عرب کے صحرا سے نکال کر اودھ کے معاشرے میں پیوست کر دیتے ہیں۔

 انیس کے زمانے میں شعر گوئی کے دو انداز عام تھے۔ ایک انداز تو وہی قدیمی تھا جس کی روش سے میر تقی میر کو ”خدائے سخن“ تسلیم کیا گیا تھا، لیکن اس انداز کو دہلوی شعرا سے منسوب کیا جاتا تھا۔یعنی تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ لیکن دوسرا انداز وہ تھا جسے لکھنئو میں ناسخ اور ان کے شاگردوں اور پیرو کار وں نے شہرت کے بام عروج پر پہنچایا تھا اور اس انداز میں الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعی کو زیادہ دخل حاصل تھا۔ انیس کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ انیس کی شعری شخصیت اس دکھاوے کا رد عمل ہے جس شاعری کا اس زمانے میں لکھنئو میں دور دورہ تھا۔ انیس کا رویہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ انیس صرف دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اب انیس کادعویٰ دیکھیئے:

ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کر دوں
بحر مواج فصاحت کا تلا طم کر دوں

یا پھر ان کا یہ دعویٰ

یہ فصاحت یہ بلاغت یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیئے تو ہے سحر جمال

ایک اور بند میں کہتے ہیں

ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے
زیب ہے خالِ سیہ چہرہٴ گل رو کے لیے
داند آں را کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد

اور انیس کے کلام کو اسی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ان کے مراثی اس کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں۔ انہوں نے جو جدت، سلاست، جذبات نگاری اور محاکات پیش کیے ہیں وہ صرف میر انیس کا حصہ ہیں۔ اسی لیے انیس کے مراثی اردو ادب کا گراں مایہ حصہ ہیں:

اے خوشا حُسن رخِ یوسف کنعان حسن
راحتِ روح حسین ابن علی جان حسن
جسم میں زورِ علی طبع میں احسان حسن
ہمہ تن خلق حسُن، حُسن حسن شان حسن

تن پر کرتی تھی نزاکت سے گرانی پوشاک
کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں شہانی پوشاک

اور جب رزم کا ذکر کرتے ہیں تو یوں گویا ہو تے ہیں:

کٹ گئی تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی
یک بیک فصل فراقِ سرو گردن آئی
بگڑی اس طرح لڑائی کہ نہ کچھ بن آئی
تیغ کیا آئی کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی
غل تھا بھاگو کہ یہ ہنگام ٹھرننے کا نہیں
زہر جو اس کا چڑھے گا تو اترنے کا نہیں

اور پھر انیس اپنے انفرادی اسلوب کا سکہ یوں چلاتے ہیں:

یک بیک طبل بجا، فوج میں گرجے بادل
کوہ تھرائے، زمین ہل گئی، گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کہ چمکنے لگیں تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکل اجل
واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوج اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا

انیس کو مرثیہ میں جو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے بارے میں تمام ناقدین ادب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ اپنے طرز کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ ا س لیے انہوں نے جو دعوے کیے ہیں وہ کسی لحاظ سے غلط نہیں ہیں۔ وہ اس بات سے بخوبی آشنا تھے کہ کہاں پر کس لفظ کا استعمال کرنا ہے اور کون سا واقعہ بیان کرنا ہے:

بزم کا رنگ جدا رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کہ رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو مصائب بھی ہوں توصیف بھی ہو
دل بھی محظوظ ہوں رقت بھی ہوں تعریف بھی ہو

انیس نے جس انداز اور اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی ان کے بعد آنے والے شعرا اسی کی پیروی کرتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لکھنئو کی مجالس میں آج بھی سب سے زیادہ انیس کے مراثی ہی پڑھے جاتے ہیں اور امام باڑوں میں انہیں کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ بقول مجاز:
ہم پر ہے ختم شام غریبان لکھنئو

Related posts

Leave a Comment