سہیل انجم ۔۔۔ قمر رئیس کے انتقال سے ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا خاتمہ

قمر رئیس کے انتقال سے ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا خاتمہ

پروفیسر قمر رئیس کے انتقال سے نہ صرف ترقی پسند ادب کے ایک عہد کا حاتمہ ہو گیا ہے بلکہ دہلی کی علم و ادب کی فضا بھی سونی ہو گئی ہے۔وہ محتصر علالت کے بعد 29اپریل کو دہلی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 77سال تھی۔

قمر رئیس کی پیدائش جولائی 1932ءمیں شاہجہان پور میں ہوئی تھی اور تدفین بھی وہیں ہوئی۔انہوں نے لکھنوٴ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کیا اور پھر مسلم یونیورسٹی سے 1959ءمیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال وہ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں لیکچرر ہوئے اور پھر ریڈر،پروفیسر اور صدر شعبہ بنے۔انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

وہ ترقی پسند ادیبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور کم و بیش دودرجن کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کا بنیادی کام پریم چند پر تھا۔وہ گذشتہ تین سال سے دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین تھے۔انہوں نے نہ صرف ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے بلکہ اردو کے خادم کی حیثیت سے بھی کافی نام کمایا تھا۔ ان کی کوششوں کی بدولت ابھی حال ہی میں دہلی میں اردو کے 28اساتذہ کی تقرری کو مستقل کیا گیا ہے۔

پروفیسر قمر رئیس تاشقند میں پانچ سال تک انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر رہے۔وہ پانچ بار انجمن اساتذہ اردو جامعات کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔ انہوں نے 18سال تک انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی حدمات انجام دیں۔وہ اردو کے پہلے پروفیسر تھے جنہیں یو جی سی نے نیشنل لیکچرار کے اعزاز سے نوازا تھا۔اس کے علاوہ 2001ءمیں تاشقند یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی تھی۔

دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چئیرمین کی حیثیت سے سابق ممبر پارلیمنٹ اور ترکمانستان میں ہند کے موجودہ سفیر جناب م افضل کے بعد اردو اکیڈمی کو سرگرم کرنے میں انہوں نے سب سے نمایاں رول ادا کیا تھا۔ان کے انتقال پر اردو حلقوں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے اور ان کی خدمات کو یاد کیا جا رہا ہے۔

معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے قمر رئیس کے انتقال پر کہا ہے کہ ان کے اٹھ جانے سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔وہ ترقی پسندی کے سنہرے دور کی یادگار تھے اور ترقی پسندوں کے ہراول دستے کے سرگرم رکن بھی تھے۔قمر رئیس نے علی سردار جعفری کے بعد ترقی پسند تحریک کے لیے تاریخی خدمات انجام دیں۔ پروفیسر نارنگ نے کہا کہ انہوں نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دہلی یونیورسٹی آجائیں جس پر انہوں نے عمل کیا۔مرحوم تنظیمی طور پر نہایت فعال شصد تھے۔وہ دوسروں سے کام لینے کا ہنر بھی جانتے تھے۔دہلی اردو اکیڈمی میں ان کی خدمات تاریخی نوعیت کی رہیں۔ان کے انتقال سے جو ادبی خلا پیدا ہوا ہے وہ آسانی سے پر نہیں ہوگا۔

پروفیسر نارنگ نے مزید کہا کہ قمر رئیس ترقی پسندی سے وابستگی کے باوجود انتہا پسندی سے ہمیشہ دور رہے اور ترقی پسند افسانوی کے اولین مجموعے ’انگارے‘ پر اعتراض کے ذریعے انہوں نے اس کا عملی مظاہرہ کیا تھا،جس میں بعض اسلامی روایات پر تنقید ان کے نزدیک قابلِ تائید نہیں تھی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ قمر رئیس نہ صرف ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے بلکہ انہوں نے بیرون ملک اردو کی ترویج و ترقی میں بھی اہم رول ادا کیا تھا۔تاشقند میں انڈین کلچرل سینٹر کے ڈائرکٹر کی حیثیت سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔قمر رئیس جہاں بھی رہے، انہوں نے وہاں اپنی چھاپ چھوڑی اور اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے نمایاں کام کیے۔

کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین نے بھی قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا قرار دیا ہے۔انجمن کے جنرل سکریٹری اور دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں ریڈر علی جاوید کے مطابق پروفیسر قمر رئیس آخری عمر تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہے اور ترقی پسند تحریک کی آبیاری کرتے رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قمر رئیس کو انجمن کے بانی سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، اعجاز حسین، احتشام حسین، رشید احمد صدیقی، اور آل احمد سرور جیسے ادیبوں اور دانشوروں کی سرپرستی حاصل رہی۔انہی اکابرین کی سرپرستی میں انہوں نے نہ صرف نظریاتی پختگی حاصل کی بلکہ ایک سرگرم تنظیم کار بھی بنے۔بقول علی جاوید قمر رئیس نے دہلی میں قیام کے دوران انجمن ترقی پسند مصنفین کو ایک فعال انجمن بنایا۔انہوں نے طلبہ کی ایک نسل کو نظریاتی تربیت دینے کا بھی کام انجام دیا۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ قمر رئیس اپنی زندگی اور فن کے حوالے سے انسانی اقدار کے نمائندہ تھے۔آپ کی صلاحیت کے معترف نہ صرف ہند وپاک کے دانش ور رہے بلکہ حکومت تاشقند نے بھی آپ کی گراں قدر خدمات کے لیے آپ کو اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔

قومی کونسل برائے فرروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھٹ نے کہا کہ قمر رئیس جس مکتب فکر کی نمائندگی کرتے تھے اس نے اردو ادب کو زندگی کا ترجمان بنانے کی بڑی موثر کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ قمر رئیس ایک بالغ نظر نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ خوش فکر شاعر بھی تھے۔منشی پریم چند پر ان کا کام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔کچھ عرصہ قبل قمر رئیس کی شاعری کا مجموعہ بھی منظر عام پر آیا تھا جو اردو نظم کے سرمایے میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر شمس الحق عثمانی کے مطابق قمر رئیس فرض شناسی کے پیکر اور طلبہ کے لیے رول ماڈل تھے۔ جب کہ سابق صدر شعبہ پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی کے مطابق وہ صرف ادیب ہی نہیں بلکہ سماجی مصلح بھی تھے اور بطور ادبی سفارتک ار ان کی نہایت غیر معمولی خدمات تھیں۔
پروفیسر قمر رئیس کے انتقال پر جے این یو، دہلی یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور متعدد کالجوں اور اردو کی ادبی تنظیموں کی جانب سے تعزیتی نشستوں کا اہتمام جاری ہے۔جن میں پروفیسر قمر رئیس کے انتقال کو اردو ادب میں ایک بڑا خلا تصور کیا جا رہا ہے۔

Related posts

Leave a Comment