رضوان احمد ۔۔۔ پرویز شاہدی کی برسی پر

پرویز شاہدی کی برسی پر

عظیم آباد کی ادبی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں کئی عالمی شہرت کے شعرا نظر آتے ہیں۔ ان میں مرزا عبد القادر بیدل عظیم آبادی، علی محمد شاد عظیم آبادی اور مرزا یاس یگانہ چنگیزی جیسے اہم نام تو ہیں ہی۔19ویں صدی میں شعرا کی ایک تثلیث نظر آتی ہے۔ جو علامہ جمیل مظہری، پرویز شاہدی اور اجتبیٰ رضوی پر مشتمل ہے۔

ان میں اجتبیٰ رضوی تو چند نظمیں کہنے اور شہرت حاصل کرنے کے بعد فلسفہ میں گم ہو گئے۔ ان کا صرف ایک شعری مجموعہ ”شعلہٴ ندا“شائع ہوا تھا۔ اپنے تشکیکی رویہ کے باوجود علامہ جمیل مظہری کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔پرویز شاہدی کو بھی ترقی پسند تحریک کے دور میں خاصی شہرت حاصل رہی اور ان کے دو شعری مجموعے” رقص حیات“ اور ”تثلیث حیات“ شائع ہوئے تھے۔ پانچ مئی سنہ 1968کو محض 58برس کی عمرمیں ان کا کولکتہ میں انتقال ہو گیا تھا۔

پرویز شاہدی نے صرف آٹھ سال کی عمرمیں شاعری شروع کر دی تھی اور عظیم آباد کی ادبی محفلوں نے ان کی فکر کو جلا بخشی تھی۔ وہ خود اپنے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
”آٹھ برس کے سن سے شعر کہہ رہا ہوں ․․․ ناسخ،  آتش، میر، سودا، داغ اور غالب کے دیوان کا مطالعہ میں 1926ءمیں ہی کر چکا تھا۔ میرے ابتدائی کلام میں ناسخ کا رنگ کافی حد تک نمایاں ہے۔ بی اے میں پہنچنے کے بعد غالب سے بے حد متاثر ہوا۔ علم اور مشق کا سرمایہ اتنا کافی نہ تھا کہ غالب کی تقلید میں کامیاب ہو سکتا۔ لیکن چونکہ طبیعت ابتدا سے ہی باغیانہ تھی میں نے اس وقت کے شعری اور ادبی مسلمات سے علیٰحدہ ہو کر شعر کہنے کی کوشش کی۔ 1933میں میری شاعری زیادہ تر ہیت پرستانہ رہی۔ 1934 میں میری شاعری میں مواد کے لحاظ سے بھی ایک انقلاب آیا۔ ہر چند یہ انقلاب صحت مند نہ تھا پھر بھی پرانے نظریات اور متعقدات کے اصنامِ مرمریں کے تورنے میں بہت مفید ثابت ہوا۔

پرویز صاحب کے بیان سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے پچاس برسوں تک مشق سخن کی۔ حالانکہ انہوں نے جن شعرا کا نام لیا ہے اس میں اپنے ہم عصر جگر مراد آبادی کا نام شامل نہیں کیا ہے جبکہ اپنے عنفوان عمر کی شاعری میں وہ جگر کی غزل سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں:
 
وہ کائناتِ عشق پہ چھاتے چلے گئے
مجھ کو بھی جزوِ حسن بناتے چلے گئے

دیکھتا ہوں دل کی دنیائے طرب جاتی ہوئی
یاد بھی اب ان کی آتی ہے تو شرماتی ہوئی

لیکن بعد میں پرویز صاحب نے اپنا منفرد لب و لہجہ بنا لیا تھا اور نیاز فتح پوری یا جوش ملیح آبادی جیسی دیو قامت شخصیات ان کی مداح نظر آتی ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:

”پرویز شاہدی سرتاپا شاعر تھے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کسی فیشن کے ماتحت یا حصول شہرت کے خاطر نہ تھی۔ انہوں نے اشتراکی عقائد کو بہت سوچ سمجھ کے اپنایا تھا اور آخری عمر تک یہ عقیدہ ان کی رگ و پے میں سرایت رہا۔ لیکن انتہا پسندی اور کٹر پن ان کے مسلک میں شامل نہ تھا خاص طور پر شعر و ادب کے معاملہ میں ان کے یہاں ایک لچک اور رواداری بھی تھی۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ذاتی طور پر مجھے ان سے ملنے کے بعض مواقع حاصل ہوئے۔

پرویز شاہدی کا لحن بھی بہت اچھا تھا اوروہ مشاعروں کے بھی کافی مقبول شاعر تھے۔ ان کی کئی غزلیں سامعین بہ اصرار سنا کرتے تھے۔ان میں یہ غزل بھی شامل ہے:

موقعِ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا
شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا
اس رفاقت پہ فدا میری پریشاں حالی
اپنی زلفوں کو کبھی تو نے سنورنے نہ دیا
تیری غم خوار نگاہوں کے تصدق کہ مجھے
غمِ ہستی کی بلندی سے اترنے نہ دیا
میں نے دیکھا ہے تیرے حسنِ خدا گاہ کا رعب
اجنبی نظروں کو چہرے پہ بکھرنے نہ دیا
حسن ہم درد تیرا ہم سفرِ شوق رہا
مجھ کو تنہاکسی منزل سے گزرنے نہ دیا
کتنی خوش ذوق ہے تیری نگہِ بادہ فروش
خالی رہنے نہ دیا جام کو بھرنے نہ دیا

پرویز شاہدی کا اصل مزاج اسی غزل سے ظاہر ہو تا ہے یہ ضرور ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اور ان کے زمانے میں انہیں جتنی مقبولیت حاصل تھی اس اعتبار سے ان کے کلام کی خاطر خواہ پذیرائی نہ ہو سکی۔ شاید اس کی وجہ ترقی پسند شعرا کی اپنی گروہ بازی تھی، جس کا شکار وہ ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ان کے ایک شاگرد معروف شاعر مظہر امام اپنے مضمون ناقدوں کے مقتول پرویز شاہدی میں لکھتے ہیں:

” اردو ادب کے اس دور میں جب پبلسٹی کے وسائل بہت وسیع ہو گئے ہیں،پرویز شاہدی نے ناقدوں کی علاقائی عصبیت سے کم اور اپنی بے نیازانہ فطرت سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ لیکن اچھا ادب بہر حال اپنے کو منوا کر رہتا ہے آج جو اردو داں پرویز شاہدی کے نام سے واقف نہیں اس کا ادبی ذوق محل نظر ہے یہ اور بات ہے کہ ہنوز انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہو اجس کا وہ استحقاق رکھتے ہیں۔‘

اس کی ایک وجہ تو شاید یہ تھی کہ پرویز صاحب نے اپنے کلام کی اشاعت پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی۔ شاید وہ مشاعروں کی، اور وہ بھی بنگال اور بہار کی مشاعروں کی مقبولیت سے مطمئن ہو گئے تھے۔ ان کے دو مجموعے کلام شائع تو ہوئے لیکن ان کی ترسیل نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز صاحب کا نام ان کے ہم عصر شعرا میں نمایاں نہ ہو سکا۔ لیکن اب پرویز شاہدی کے کلام کی اہمیت کو پہچانا گیاہے۔حال ہی میں ان کا مجموعہ ”تثلیثِ حیات“ نئی ترتیب و تدوین کے ساتھ کراچی سے شائع ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ناقدین نے بھی اس پر توجہ دی ہے۔ ادیب سہیل تثلیثِ حیات میں لکھتے ہیں:

” پرویز شاہدی کے کلام کی پذیرائی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک میں بھی ترجمے کی صورت میں ہو نے لگی ہے۔ میرا خیال ہے کہ عالمی شعری منظر نامے میں پرویز شاہدی چیلی کے شاعر پبلو نرودا، ترکی کے ناظم حکمت اور افریقی شاعر پٹر بلیک مین کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پرویز صاحب کی شاعرانہ عظمت کی دلیل ہے۔“

اسی مجموعے میں اختر پیامی لکھتے ہیں:

”پرویز شاہدی کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے والے انسان تھے۔ وہ ساری زندگی خواب دیکھتے رہے اور جب سارے خواب دھندلا گئے تو وہ اس خاک دان سے رخصت ہوگئے۔پرویز شاہدی کی شاعری انقلاب اور رومانیت کا دلکش امتزاج ہے وہ انقلاب کو گھن گرج سے عبارت نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں انقلاب ایک سجی سجائی دلہن کی طرح ہے۔ ایک با عمل سیاسی کارکن ہونے کے باوجود انہوں نے شاعری کے حسن کو برقرار رکھاہے۔ وہ محبت کی قدروں پر یقین رکھتے تھے اور اسی لیے وہ اپنی محبوبہ سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ”دیکھ للچائی نگاہوں سے نہ ایوانوں کو۔“انہیں معلوم تھا کہ ان حریری پردوں کے جھلملاتے ہوئے رنگوں میں کتنے مظلوم انسانوں کا خونِ جگر شامل ہے۔
پرویز شاہدی نے غزلیں بھی کہیں اور نظمیں بھی۔ لیکن رباعی گوئی پر تو انہیں زبردست دسترس حاصل تھی۔ ان کی رباعیوں کے مداح تو جوش ملیح آبادی تک تھے:
 
ظلمت کا طلسم توڑ کر لایا ہوں
پنجہٴ شب کا مروڑ کر لایا ہوں
اے صبح کا نور پینے والو دوڑو
تاروں کالہو نچوڑ کر لایا ہوں

بارش میں کب آگ سر اٹھا سکتی ہے
کب موت حیات کو دبا سکتی ہے
اے امن کے گیتوں کی گھٹاؤ برسو
بارود کا کیا ہے بھیگ جا سکتی ہے

یا پھر ان کی غزلوں کے یہ اشعار

جلتے رہنا کام ہے دل کا بجھ جانے سے حاصل کیا
اپنی آگ کے ایندھن ہیں ہم ایندھن کا مستقبل کیا
نہیں آتا ان اربابِ ہوس کو کوئی فن اچھا
بس اتنا ہے کہ سی لیتے ہیں یہ اپنا کفن اچھا
کتنے افسانے بناکر رکھ دیے تھے شوق نے
یوں نقاب الٹی حقیقت نے کہ حیراں کر دیا
کس قدر مضبوط نکلے تیرے دیوانے کے ہاتھ
شامِ غم کو جب نچوڑا صبحِ تاباں کر دیا
دل نے نہ لیا دیدہٴ گریاں کا سہارا
تھا گرچہ ترے گوشہٴ داماں کا سہارا

کیا اے میری شوریدہ سری تو نے ابھی تک
دیوار میں کھلتے درِ زنداں نہیں دیکھا

زنجیریں ٹوٹی جاتی ہیں زورِ بہار سے
اب رقص کرنے والا ہے دیوانہ آپ کا

خاموشی بحرانِ صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ
سناٹا تک چیخ رہا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

کوئے ستم سے گزریں تو شوریدہ گانِ عشق
ہنسنے لگیں گے زخمِ جگر زخمِ سر کے بعد
کمبخت ڈھونڈھتی ہے محبت میں فلسفہ
تنگ آگئے ہیں عقل کے دیوانہ پن سے ہم

Related posts

Leave a Comment