تا درِ یار پہنچتا ہے وہ خود رفتۂ شوق اپنی ہستی سے جو اس راہ میں بیگانہ بنے
Read MoreDay: جنوری 27، 2023
برق دہلوی ۔۔۔ دل جو صورت گرِ معنی کا صنم خانہ بنے
دل جو صورت گرِ معنی کا صنم خانہ بنے آنکھ جس شے پہ پڑے جلوۂ جانانہ بنے اتنے ہی ہو گئے ہم منزلِ عرفاں کے قریب جس قدر رسم و رہِ دہر سے بیگانہ بنے تا درِ یار پہنچتا ہے وہ خود رفتۂ شوق اپنی ہستی سے جو اس راہ میں بیگانہ بنے ظرفِ مے ٹوٹ کے بھی ہونے نہ پائے بے کار ہو شکستہ کوئی شیشہ تو وہ پیمانہ بنے سعیٔ ناکام سے میں ہاتھ اٹھاؤں گا نہ برق میری بگڑی ہوئی تقدیر بنے یا نہ بنے
Read Moreپنڈت جواہر ناتھ ساقی
یا رب یہ قلبِ ہیئتِ قلبی عجیب ہے نیرنگ دیکھتے ہیں یہ کیا اے خدائے قلب
Read Moreصائمہ آفتاب ۔۔۔ رات گزری نہ آنکھ بھر سوئے
رات گزری نہ آنکھ بھر سوئے ہم کہاں تجھ کو بھول کر سوئے دو جہانوں میں برسرِ پیکار ایک پہلو سے بے خبر سوئے ہم سگِ کوئے یار اپنے تئیں غفلتی ہو کے در بدر سوئے نوعِ انساں کی بے بسی دیکھو نیند آتی نہ تھی مگر سوئے چھوڑ خوابوں کے نرمگیں بستر جانے سب کیوں اِدھر اُدھر سوئے باغ کے پہرے دار آئے کئی اور اُن میں سے بیشتر سوئے ہجر بیگار کا سَمے کس کو دن کے مصروف رات بھر سوئے زندگی ، سب ترے تھکائے ہوئے آخرش…
Read Moreخالد احمد
خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں آدمی اُٹھ گئے ، نیکیاں رہ گئیں
Read Moreسید فرخ رضا ترمذی ۔۔۔۔ جب ہم نے بار بار اسے آزما لیا
جب ہم نے بار بار اسے آزما لیا تب ہی تو اس کے بارے کوئی فیصلہ لیا شب بھر تمہاری یاد میں مخمور سا رہا شب بھر تمہاری یاد کا ایسا مزا لیا تاریکیوں میں روشنی پانے کے واسطے ہم نے تمہاری یاد کو جگنو بنالیا تجھ سے وصال میرے لئے ہے کمالِ ذات ہم نے ترے جمال سے خود کو سجا لیا یاروں کا حال دیکھ کے فرّخ رضا نے اب چپ چاپ اپنا حال سبھی سے چھپا لیا
Read Moreسید فرخ رضا ترمذی ۔۔۔ پھول کھلنے لگے اور رات سہانی آئی
پھول کھلنے لگے اور رات سہانی آئی تیرے آنے کی خبر جب مری رانی آئی میرے اجداد نے میراث میں ہجرت چھوڑی میرے حصے میں بھی بس نقل مکانی آئی مدتوں بعد جو اسباب سنبھالا میں نے یار کی اس میں نظر مجھ کو نشانی آئی آج جب بزم میں اک دوست پرانا دیکھا آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی جب عریضے کو کیا میں نے سپردِ دریا ٹھہرے پانی میں نظر مجھ کو روانی آئی بات کہنے کے ہنر پر تھا بہت ناز مجھے پر کبھی اپنی کہانی…
Read Moreغلام مرتضیٰ ۔۔۔ دامن میں اک پہاڑکے۔۔۔۔۔۔
دامن میں اک پہاڑکے۔۔۔۔۔ (SAMUEL ROGERSکی نظم ’’A WISH ‘‘ کا آزاد ترجمہ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دامن میں اک پہاڑ کے کٹیا بناؤں گا میں چھوڑ کر نگر، کوئی جنگل بساؤں گا ہر صبح بھیرویں مجھے گا کر سنائے گی کانوں میں رس پڑے گا، مگس بھنبھنائے گی چکّی مری چلائے گی بہتی ہوئی ندی جھرنوںکے نیلے جل سے، ہری گھاس سے بھری اس چھت کے نیچے رہنے ابابیل آئے گی گارے کے گھونسلے میں بہت چہچہائے گی مہمان تحفہ لائے گا اک جانماز کا کھائے گا ساتھ کھانا وہ زائر حجاز…
Read Moreاسلام عظمی ۔۔۔ کسی اور کا ہے جہاں ‘ یار جی
کسی اور کا ہے جہاں ‘ یار جی ہے بیکار آہ و فغاں ‘ یار جی پرانی کہانی کے کردار ہیں نئی کب ہے یہ داستاں ‘ یار جی کوئی بزم میں لوٹ آیا ہے پھر عجب ہو گیا ہے سماں ‘ یار جی گزارا ہے جب بے نشانی میں دن تو کیا ڈھونڈنا ہے نشاں ‘ یار جی
Read Moreخالد احمد
چار جانب وہی دھندلکے ہیں گمرہو! پھر وہی گلی آئی
Read More