صائمہ آفتاب ۔۔۔ سنبھل سنبھل کے وہ طے گام گام کر رہا ہے

سنبھل سنبھل کے وہ طے گام گام کر رہا ہے سہج سہج کے تعلق پہ کام کر رہا ہے دیے جلاتا ہوا ، گھنٹیاں بجاتا ہوا بڑے ہی چاؤ سے اک بت کو رام کر رہا ہے یہ آسمان ، یہ بے انتہا اداسی دیکھ ستارہ وار یہاں غم خرام کر رہا ہے یہ وقت باغ مہکنے کا ہے ، جگاؤ اسے جو شخص خواب سرا میں قیام کر رہا ہے سپردِ غیر نہ کر دوں میں اسکے دن جو اَب کسی کے ساتھ بسر میری شام کر رہا ہے…

Read More

صائمہ آفتاب ۔۔۔ رات گزری نہ آنکھ بھر سوئے

رات گزری نہ آنکھ بھر سوئے ہم کہاں تجھ کو بھول کر سوئے دو جہانوں میں برسرِ پیکار ایک پہلو سے بے خبر سوئے ہم سگِ کوئے یار اپنے تئیں غفلتی ہو کے در بدر سوئے نوعِ انساں کی بے بسی دیکھو نیند آتی نہ تھی مگر سوئے چھوڑ خوابوں کے نرمگیں بستر جانے سب کیوں اِدھر اُدھر سوئے باغ کے پہرے دار آئے کئی اور اُن میں سے بیشتر سوئے ہجر بیگار کا سَمے کس کو دن کے مصروف رات بھر سوئے زندگی ، سب ترے تھکائے ہوئے آخرش…

Read More

صائمہ آفتاب ۔۔۔ دوسروں کی جو بھُول ہوتے ہیں

دوسروں کی جو بھُول ہوتے ہیں وہ بھی بندھن قبول ہوتے ہیں وار تو سامنے سے کرنا سیکھ جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں کوئی آنکھیں غزل سرا جب ہوں سارے نغمے فضول ہوتے ہیں روز ترتیب پاتے ہیں لشکر روز دفتر میں پھول ہوتے ہیں چھوڑئیے ، افسرانِ حُسنِ و ادا آپ کیونکر ملول ہوتے ہیں اور ہوتے ہیں راہ کا پتھر ہم تو رستے کی دھول ہوتے ہیں

Read More