صائمہ آفتاب ۔۔۔ دوسروں کی جو بھُول ہوتے ہیں

دوسروں کی جو بھُول ہوتے ہیں
وہ بھی بندھن قبول ہوتے ہیں

وار تو سامنے سے کرنا سیکھ
جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں

کوئی آنکھیں غزل سرا جب ہوں
سارے نغمے فضول ہوتے ہیں

روز ترتیب پاتے ہیں لشکر
روز دفتر میں پھول ہوتے ہیں

چھوڑئیے ، افسرانِ حُسنِ و ادا
آپ کیونکر ملول ہوتے ہیں

اور ہوتے ہیں راہ کا پتھر
ہم تو رستے کی دھول ہوتے ہیں

Related posts

Leave a Comment