رضوان احمد … شاد عظیم آبادی (ایک تعارفی مضمون)

شاد عظیم آبادی   ۔۔۔ ایک تعارفی مضمون

علی محمد شاہ عظیم آباد کی پیدائش مغل پورہ کے ایک متوسط خاندان میں 8جنوری 1846ءکو ہوئی تھی۔ ان کا زمانہ سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے بے حد ہیجان انگیز تھا، بظاہر تو ساری چیزیں درست نظر آتی تھیں لیکن صرف گیارہ برس بعد جنگ آزادی کی شروعات ہو گئی تھی جسے غدر کا نام دیا جاتا ہے۔
 لڑکپن ہی سہی لیکن شاد عظیم آبادی نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس سے ان کی شاعری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ شاہ عظیم آبادی نے ساٹھ برسوں تک شاعری کی اور گراں قدر سرمایہ چھوڑا۔ انہوں نے اپنی پوری عمر عظیم آباد میں ہی گزاری۔ جسے آج پٹنہ کہا جاتا ہے اور سات جنوری 1927 کو یہیں ان کا انتقال ہوا۔
شاد عظیم آبادی نے ذہنِ رسا پایا تھا اور انہیں نظم و نثر دونوں پر ملکہ حاصل تھا۔ جہاں انہوں نے شاعری کی وہیں افسانے اور ناول بھی لکھے۔ پٹنہ کی تاریخ بھی مرتب کی اور کئی تنقیدی مضامین بھی لکھے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ طویل وقفہ تک شاد عظیم آبادی پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ صرف عزیز احمد نے ایک طویل مقالہ لکھا تھا جو نقوش لاہور میں 1952ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد ہی شاد کی شاعری نے اپنی جانب توجہ مبذول کر وائی۔ عزیز احمد نے ان کی شاعری جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا:
شاد عظیم آبادی کی فکر کا تجزیہ کیاجائے اور اس تجزیہ کو اگر ان اشعار پر مبنی سمجھا جائے جو ان کی منفرد شاعرانہ شخصیت کو ممتاز کرتے ہیں تو اندازہ ہو تا ہے کہ وہ معاملاتِ عشق کے شاعر ہیں۔ معاملاتِ عشق بڑی وسیع اصطلاح ہے، اس میں ہر طرح کا عشق شامل ہے۔ وجدانی، عرفانی اور خراباتی شاد کے کلام کا مطالعہ بڑی حد تک معاملات ِعشق کے بیان کی تفصیلی پرکھ ہے۔ راستا ان کا وہی ہے جو اور سب فارسی اور اردو شاعروں نے طے کیا ہے،مجاز سے حقیقت تک، مگر شاد عظیم آبادی کا زادِ سفر منفرد ہے۔ ان کی رفتار ان کی اپنی ہے۔ منزلوں پر ٹھہرنے کا انداز ان کا اپنا ہے، راستے کی تھکن اور سفر کی صعوبت کا تجزیہ بھی ان کا خود کا ہے اور انفرادیت محض اس سوز و گداز کی وجہ سے نمایاں ہے۔ جو غزل میں بہت کم شاعر کو میسر ہو تی ہے۔ مجاز سے حقیقتِ عشق کا سفر بڑا دلچسپ ہے۔ شاعر بحثیت فرد اسے تسلسلِ زماں میں طے نہیں کرتا۔ مراحل ہو تے ہیں مگر وقت کے پابند نہیں ہو تے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سفرِ ارتقا ہے۔ ادراک ذہن اور وجدان کے تجربوں کا ارتقا۔ اس سفر میں شاد کی سب سے بڑی خصوصیت سوز و گداز ہے۔ یہ سوز گداز نظر اور تجربے کے خلوص سے پیدا ہوا ہے اور اس کا پہلا اظہار عشقِ مجازی کی منزل پر اخلاصِ نظر سے ہوا ہے۔ محبوب کی حرکات و سکنات کے مشاہدے کے وقت یہی اخلاصِ جمال اور احساسِ جمال دونوں کو بیک وقت شعر میں منتقل کرتا ہے۔‘‘

ہے ہے مری چشمِ حسرت کاسب دردِ دل ان سے کہہ جانا
دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنے کچھ سوچ کے ان کا رہ جانا

اُف اُف وہ ہتھیلی سے ان کا شرما کے جھکانا آنکھوں کو
برچھی کی ادا کا چل جانا اس تیرِ نگاہ کا رہ جانا

ہم باغ میں ناحق آئے تھے بلبل کی حکایت کیاکہیے
منقار کو رکھ کر کلیوں پر کچھ اپنی زبان میں کہہ جانا

لیکن عزیز احمد کا یہ قیمتی مقالہ اپنی جگہ، پر ان سب کے باوجود شاد پر اصل کام اس وقت شروع ہوا جب پروفیسر کلیم الدین احمد نے 1975ء میں ”کلیاتِ شاد“ تین جلدوں میں ترتیب دی اور اس کی پہلی جلد میں 135صفحات پر مشتمل ایک مقالہ بھی لکھا۔ جس میں شاد کی شخصیت، شاد کی عظمت اور ا ن کی شاعرانہ صفت پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ چونکانے والا جملہ بھی لکھا:
  اردو غزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں۔“

سبھی جانتے ہیں کلیم الدین احمد اپنے ہر تنقیدی مقالے کا آغاز کسی چونکانے والی بات سے کرتے ہیں۔خواہ ان کی بات کتنی ہی متنازع کیوں نہ ہو جائے اور اسے ناقدینِ وقت تسلیم کریں بھی یا نہیں۔ یہاں بھی انہو ں نے یہی التزام رکھاہے اور کئی ایسی باتیں کہہ دی ہیں جن سے اتفاق کرنا مشکل ہے:
اردوغزل کی کائنات کی تثلیث میر، غالب اور شاد ہیں۔ میر اپنی زندگی میں امام المتغزلین شمار کیے جاتے تھے۔ اقلیم غزل پر ان کی حکومت تھی اور میر اپنی یکتائی سے آگاہ تھے۔ لیکن میرکی عظمت کا زبانی اعتراف ہو تو ہو ان کی طرف کوئی ملتفت نہیں ہو تا۔ ان کا ایک شعر ہے:

   پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
   اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

یہ واقعہ ہے کہ اب انہیں کوئی پوچھتا نہیں اور عزت شاعری بھی اگلی سی نہیں۔ رہے غالب تو میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ غالب کی زندگی میں ان کی وہ قدر نہ ہوئی جس کے وہ مستحق تھے اور ا ن کے مرنے کے بعد ان کی اس قدر شہرت ہوئی جس کے وہ مستحق نہ تھے۔
شاد کا معاملہ جدا گانہ ہے۔ ان کی زندگی میں بھی وہ قدرنہ ہوئی جس کے وہ مستحق تھے بلکہ ہمیشہ حریفوں کی یورش میں گھرے رہے اور ان کے انتقال کے بعد تقریباً نصف صدی کی مدت گزر گئی ہے۔ وہ گمنام پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا:

   پھر تو ہو جائیں گے بازارِ جہاں میں مہنگے
   شاد اَرزاں ہیں جبھی تک کہ میسر ہم ہیں

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف ارزاں ہی نہیں ان کا کوئی خریدار ہی نہیں۔ اسی کو تقدیر کا طنز کہتے ہیں۔ وہ شاعر جو میر اور غالب کے شانہ بشانہ قدم ملا کر چل سکتا ہے، وہ در خورِ اعتنا نہ سمجھا جائے؟ اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے۔“حق تو یہ ہے کہ شاد کے قدم میر اور غالب کے قدموں سے کبھی آگے جا پڑتے ہیں۔“ 
ظاہر ہے کہ کلیم الدین احمد کے ان خیالات سے ہر کوئی اتفاق نہیں کر سکتا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شاد عظیم آبادی بڑے شاعر تھے اور انہوں نے غزل کے سرمایے کو مزید تب و تاب دی۔ ان کی لفظیات بھی کئی لحاظ سے مختلف ہیں اور انہوں نے مضامین کو جس انداز سے باندھا ہے، وہ ان کی فکر پر دال ہے۔ ان کی غزلوں میں جو انفرادیت سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے اس کی سادگی سلاست اور آہنگ۔ الفاظ کے انتخاب کا بھی وہ خاص دھیان رکھتے ہیں کہ وہ صوتی اعتبار سے خوش آہنگ ہوں۔ اسی لیے شاد اعظیم آبادی کے متعدد اشعار زبان زد خاص و عام ہیں:

اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا

کہاں سے لاؤں صبر ِحضرت ایوب، اے ساقی!
خُم آئے گا صراحی آئے گی تب جام آئے گا

اے شوق بتا کچھ تو ہی بتا اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بیتاب نہاں یا آپ دل ِبے تاب ہیں ہم

کسی کی لو ہے جو سینے کا دا غ روشن ہے
اندھیرے گھر میں یہی اک چراغ روشن ہے

نگہ کی بر چھیاں جو سہہ سکے سینہ اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

یہ بزم مئے ہے یاں کو تاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

اسیرِ جسم ہوں میعادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
سنی حکایتِ ہستی تودرمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

 یا پھر ان کی یہ مشہور غزل

تمناؤں میں الجھایا گیاہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
دلِ مضطر سے پوچھ اے رونقِ بزم
میں خود آیا نہیں، لایا گیاہوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیاہوں
سویرا ہے بہت اے شور ِمحشر
ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں
قدم اٹھتے نہیں کیوں جانبِ دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شاد دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں

شاد کی ایک اور معرکہ آرا غزل کے چند اشعار

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

میں حیرت و حسرت کامارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

 لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم

مرغانِ قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آجاؤ جو تم کو آنا ہے ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

کلیم الدین احمد جیسے ناقد نے تو شاد کی عظمت کا اعتراف کر لیا۔ لیکن عوامی سطح پر ابھی ان کی عظمت کا اعتراف ہونا باقی ہے۔ حالانکہ شاد کو خود اپنی عظمت کا اعتراف تھا:

 درِ مضموں کوئی یوں گوندھ لے اے شاد مشکل ہے
سلیقہ انتہا کا چاہیے موتی پرونے میں

Related posts

Leave a Comment