برق دہلوی ۔۔۔ دل جو صورت گرِ معنی کا صنم خانہ بنے

دل جو صورت گرِ معنی کا صنم خانہ بنے آنکھ جس شے پہ پڑے جلوۂ جانانہ بنے اتنے ہی ہو گئے ہم منزلِ عرفاں کے قریب جس قدر رسم و رہِ دہر سے بیگانہ بنے تا درِ یار پہنچتا ہے وہ خود رفتۂ شوق اپنی ہستی سے جو اس راہ میں بیگانہ بنے ظرفِ مے ٹوٹ کے بھی ہونے نہ پائے بے کار ہو شکستہ کوئی شیشہ تو وہ پیمانہ بنے سعیٔ ناکام سے میں ہاتھ اٹھاؤں گا نہ برق میری بگڑی ہوئی تقدیر بنے یا نہ بنے

Read More