شدتِ غم سے نکھر جائیں گے ہم
تم یہ سمجھے ہو، بکھر جائیں گے ہم
گفتگو ہو گی در و دیوار سے
شب گئے جب اپنے گھر جائیں گے ہم
آپ پھر آئیں گے کیا سورج لیے
جب اندھیروں میں اتر جائیں گے ہم
بارہا چوما فرازِ دار کو
کون کہتا ہے کہ ڈر جائیں گے ہم
جسم سے اک دن نکل جائے گی جان
پھر کہیں یہ بوجھ دھر جائیں گے ہم
اپنے دل کی بات دل میں ہی لیے
کربِ ہستی سے گزر جائیں گے ہم
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...