میر تقی میر ۔۔۔ کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا

کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیےلیکن ہونٹوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ جودرد و الم تھا سو کہے تُو کہ وہیں تھا جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا نام آج…

Read More