احمد صغیر صدیقی … روز ہی کچھ مجھ پر کھلتا تھا

روز ہی کچھ مجھ پر کھلتا تھا روز ہی اک دفتر کھلتا تھا آنکھیں موند دی جاتی تھیں جب کوئی منظر کھلتا تھا کرتا کیا اظہارِ تمنا ہنگاموں کا در کھلتا تھا چپ رہنے کا راز بھی اپنا شور شرابے پر کھلتا تھا گھر سے باہر کیسے جاتا دروازہ اندر کھلتا تھا

Read More