عزم الحسنین عزمی ۔۔۔ دو غزلیں

مانتی کب تھی یہ ہونے پر، مگر ہونا پڑا راہ کی دیوار کو اس بار در ہونا پڑا آ گیا تو بس خدا ہونے کا ہی گُر سیکھ کر کل کلاں پھر آدمی تجھ کو اگر ہونا پڑا بانٹ دی اپنی سمجھداری یہاں پر اس لیے مجھ کو پاگل وقت سے کچھ پیشتر ہونا پڑا آخرش تھا قیس کی گدی نشینی کا سوال سو ہوا برباد مجھ کو جس قدر ہونا پڑا گھر نہیں بس، کاش وہ بھی دیکھ لو اے حاسدو عمر بھر اس کے عوض جو دربدر ہونا…

Read More