میر تقی میر ۔۔۔ تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا

تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا مجلس میں رات ایک ترے پرتوِ بغیر کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا منعم کے پاس قاقم و…

Read More