ابوطالب انیم ۔۔۔ آبجو سے اٹھی بھاپ میں آنکھ کا پھول جلتا رہا

آبجو سے اٹھی بھاپ میں آنکھ کا پھول جلتا رہا
اک رہٹ سے مرے خواب بہتے رہے اور میں چلتا رہا

میں نے دیکھے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے پھول کھلتے ہوئے

خواب کا ذائقہ میرے اندر ہی اندر پگھلتا رہا

پتہ پتہ گرا خاک پر رات تنہائ سے اٹ گئی

کروٹوں پر نئی کروٹیں کھیت میں ہل بدلتا رہا

لوگ بیٹھے رہے آگ کے گرد اور خوب قصہ بھی تھا

ایک آنسو گرا فرش پر، دیر تک گیند اچھلتا رہا

ہونٹ چپکے رہے اور لفظوں پہ بالائی جمتی رہی

اک دیے پہ رکھی جاں میں دل رات دن بس ابلتا رہا

آسماں پر ستاروں کے پکنے کا موسم مہکنے لگا

رنگ خوشبو کے رستے نئے ذائقوں میں بدلتا رہا

تیز بوچھاڑ میں سہمے سہمے پرندے لرزتے ہوئے

کانپتی پینگ پر تھرتھراتا ہوا غم سنبھلتا رہا

دور پربت پہ شاخیں پسارے شجر تو بلاتے رہے

میں انیم اپنے بازو پہ لیٹا رہا اور مچلتا رہا

Related posts

Leave a Comment