میں جس طرف بھی گیا اس طرف ہی کونا تھا
مجھے ہوا میں بھی گوشہ نشین ہونا تھا
میں اپنی جاں سے نہ گر کھیلتا تو کیا کرتا
کہ میرے پاس یہی آخری کھلونا تھا
میں خالی آنکھ سے تکتا رہا خدا کی طرف
تب اس نے رو کے بتایا مجھے،کہ رونا تھا
پھر ایک روز وہ جھیل آکے مجھ سے کہنے لگی
کنول کھلایا ہی کیوں تھا اگر ڈبونا تھا
نچوڑنے پہ جو اب گرد جھڑرہی ہے تو پھر
خیال آیا کہ دامن کو بھی بھگونا تھا
مجھے تو ماٹی کے بت بھا گئے تھے میلے میں
سنبھالتا بھی تو سکہ ضرور کھونا تھا
وہ رات بھی مری ساحل پہ جاگتے گذری
وہ رات جس میں سمندر کے ساتھ سونا تھا
پھر اپنے عکس سے آنکھیں ملا کے بات اب کر
تجھے یہ بیج اگر آئنے میں بونا تھا
تمام عمر میں گھٹنوں کے بل چلا ہوں انیم
کہ ہم سفر ہی نہیں راہبر بھی بونا تھا