ابوطالب انیم ۔۔۔۔۔۔۔ رہے گا کب تک یہ رقص بے جان پتھروں پر

رہے گا کب تک یہ رقص بے جان پتھروں پر

کوئی گرائے عمود حیرت کے دائروں پر

مرے لیے عرش پر کوئی جال بن رہا ہے

بہت سی آنکھیں لگی ہوئی ہیں مرے پروں پر

کھلی ہوئی کھڑکیوں سے رستے لٹک رہے تھے

ہمارے پہرے کہ بس جمے رہ گئے دروں پر

ابھی تو پایاب ہے تمھارا چناب پانی

سو پھر رہے ہیں اٹھا کے ہم کشتیاں سروں پر

گذر چکے ہیں ہزار ہا قافلے یہاں سے

سو دیکھیے کیا، ہے گرد ہی گرد منظروں پر

انیم تہذیب گنگ غاروں سے کیسے نکلے
یقین رکھتے ہیں دشت والے ابھی گھروں پر

Related posts

Leave a Comment