گھر میں بھی تھا تنہائی سے اکتایا ہوا سا
باہر بھی ہوں اب بھیڑ میں گھبرایا ہوا سا
سلجھا نہیں دھاگا کہ میں انگشتِ ہنر سے
تھا ساعت ِ نا سعد کا الجھایا ہوا سا
اظہارِ یقیں کرتا ہے لہجے میں گماں کے
یہ سچ ہے کسی جھوٹ کا بہکایا ہوا سا
ہو تنگ نہ یکسانی سے یہ وقت کسی نے
دن رات میں تقسیم ہے فرمایا ہوا سا
اترا نہ لبادہ مرا اعجازِ صبا سے
ساحر نے خزاں کے ہے وہ پہنایا ہوا سا
آتا نہیں پہچان میں اس حسن پہ افسوس
جب عمر کی سختی نے ہو گہنایا ہوا سا
ماضی بھی رہا تھامرے افعال پہ نادم
ہے حالِ غلط کار بھی پچھتایا ہوا سا