آج کیا لَوٹتے لمحات میسّر آئے
یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے
آشنائی ترے جلووں سے مگر کیا تھی ضرور
اک نظر دیکھ لیں ہم رونقیں، جی بھر آئے
کیا خبر ترکِ تعلّق ہی اسے ہو منظور
اب گِلہ کرتے بھی اِس جی کو بہت ڈر آئے
تو ہی کچھ کہہ کہ ترے عہدِ وفا سے پہلے
غم وہ کیا تھا کہ ہم اک عمر بسر کر آئے
تیرے قصّے نہیں کم یوں تو رلانے کے لیے
اک اچٹتا سا تعلّق بھی میسّر آئے
اپنی خاموش نگاہی کو نہ اک راز سمجھ
غم زدوں تک ترے پیغام برابر آئے
کس نے دیکھی ہے مگر جنّتِ فردا بانی
یہ وہ دنیا ہے کہ بس دھیان میں اکثر آئے