سید آل احمد ۔۔۔ اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں

اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں
بتا اے موجۂ گرداب! یہ تماشا  کیوں

مجھے پتہ ہے ترے دل کی دھڑکنوں میں ہوں
میں ورنہ دُکھ کی کڑی دوپہر میں جلتا کیوں

رہِ طلب میں مسلسل تھکن سے خائف  ہوں
سکوں جو ہاتھ نہ آئے سفر ہو لمبا کیوں

یہ امتحاں تو نمودِ وفا کا جوہر تھا
اُسے یقین جو ہوتا  مجھے رُلاتا کیوں

یہ پائے زیست میں زنجیرِ بے یقینی کیا
رکھا ہے ہم کو لبِ جو بھی اتنا تشنہ کیوں

ابھی تو اگلے ہی زخموں کے پھول تازہ ہیں
بدن کو چھید رہا ہے خیالِ فردا  کیوں

خجل تھا کتنا مرے ضبط کے طمانچے پر
میں اپنے مدمقابل  سے رات جیتا کیوں

نہ کوئی رنگ‘ نہ سلوٹ‘ نہ کوئی حرفِ طلب
ورق ہے دیدۂ و دل کا یہ اتنا سادہ کیوں

چھپاؤں کیسے‘ کروں کس طرح اسے تقسیم
دیا ہے درد کا اتنا بڑا خزانہ  کیوں

یہ اور بات کوئی مجھ سے پرخلوص نہیں
مری طرف سے کسی کا بھی دل ہو میلا کیوں

جو تجھ سے پیار نہ ہوتا تو آبرو کی قسم
ہر آتے جاتے ہوئے شخص کو یوں تکتا کیوں

صبا کی پور سے نازک ہے اس کے ظرف کا پھول
دیا ہے سینے میں دل یہ بہ شکل شیشہ کیوں

کسے ہے فرصتِ  یک لمحہ رُک کے دُکھ پوچھے
کھڑے ہو دُھوپ میں آزردہ دل یوں تنہا کیوں

وفا نا آشنا اتنا ہی تھا اگر احمدؔ
میں سوچتا ہوں اسے میں نے خط لکھا تھاکیوں

Related posts

Leave a Comment