شوکت محمود شوکت ۔۔۔ دو غزلیں

بھول کر تلخیٔ حالاتِ زبوں ، بولتے ہیں
برسرِ دار و رسن ، اہلِ جنوں ، بولتے ہیں

پھر زمانے پہ تسلّط ہے کسی سامری کا
شہر در شہر یہ اثراتِ فسوں ، بولتے ہیں

ہم جو بولے تو سبھی اہلِ قضا بول اُٹھے
بولنے والے اگر بولیں تو یوں بولتے ہیں

پیش آتی ہے جہاں ، بیعتِ طاغوت کی بات
پھر وہاں ، نام و نسب ، غیرت و خوں بولتے ہیں

اہلِ دنیا کی نظر میں ہیں وہ شاعر ، شوکت
لے کے جو سوزِ جگر سوزِ دروں بولتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بے کلی دل کی بڑھی ہے ، خیر ہو
زندگی مشکل ہوئی ہے ، خیر ہو

شام ہوتے ہی کسی کی یاد ، پھر
بے سبب آنے لگی ہے ، خیر ہو

سارے عالم میں عدوئے جان ، اب
آدمی کا آدمی ہے ، خیر ہو

پھر بہاریں سوئے گلشن ہیں رواں
وحشتِ دل دیدنی ہے ، خیر ہو

بے وفائی کا گلہ بے سود ہے
حسن کی فطرت یہی ہے ، خیر ہو

میں نے اظہارِ محبت کر دیا
بات دل کی کر ہی دی ہے ، خیر ہو

آج شوکت ، اس قدر ہونٹوں پہ کیوں
رقص فرما خامشی ہے ، خیر ہو

Related posts

Leave a Comment