اپنے تئیں کیا صفا، سجایا نہیں
دل کو وہ ، آئنہ بنایا نہیں
تخلیہ، تخلیہ، پکارا میں
سب گئے، تو بھی، آ : سمایا نہیں
چشم و دامانِ دل و دستِ دعا
کیا تھا، کشکول جو بنایا نہیں
درِ دل پر، غضب تھی وہ دستک
بس: زمیں، آسماں ہلایا نہیں
اس نے ارزاں کیا خیال اپنا
میں، ہنر کچھ بھی تو کمایا نہیں
دل ہی دل میں ہوئی ہیں سب باتیں
لب کو میں حرف آشنایا نہیں
تیری دوری کو میں جو قُرب کیا
فاصلہ، گل کوئی کھلایا نہیں
کَلِمَہ لا اِلہ اِلا ھُو
لب پہ آیا تو پھر بھلایا نہیں
ایک اک سُر کی سادھنا کرتے
دل نے کس راگ، تجھ کو گایا نہیں
کیف آگیں ہے وہ خیال بھی کیا
جو ابھی دل کو گدگدایا نہیں
ایک احساسِ نا تمامی ہے
کیا ہے، کیوں ہے، یہ بُوجھ پایا نہیں
کیوں یہ لگتا ہے جیسے اس نے مجھے
کچھ بنایا ہے، کچھ بنایا نہیں
غور کرنا ہے، سوچنا ہے وہ سب
جو بتایا گیا ، بتایا نہیں